(زین مدنی) فلم بینوں کا مزاج بدل گیا، فلم انڈسٹری میں سلمان خان اور شاہ رخ کا دور ختم ہوتا نظر آنے لگا۔ برصغیر میں پنجابی فلمیں اِن، اُردو آؤٹ ہونے لگیں۔ اُردوفلموں میں بھی پنجابی کے تڑکے دیکھنے والوں کو سینما کی طرف کھینچنے لگے۔
سکرین بڑی ہو یا پھر ہو چھوٹی، فلم بینوں کے مزاج بدلنے کا کوئی پتہ نہیں چلتا۔ ابھی کچھ برس ہی پیچھے چلے جائیں تو انڈین اُردو فلمیں پورے برصغیر میں فلموں بینوں کی توجہ کا مرکز ہوا کرتی تھیں لیکن اب یہ رجحان پنجابی فلموں نے بالکل بدل کر رکھ دیا ہے۔
دونوں زبانوں کی فلموں کا تقابلی جائزہ لیں تو ویسے عام آدمی تو چکرا کے ہی رہ جاتا ہے کہ پروڈیوسرز نے آکر گیم کیا ڈالی ہے کہ اردو فلموں کو آج کل لوگوں نے منہ لگانا کم کر دیا ہے۔ پنجابی فلم ہو تولوگ مزے سے دیکھتے ہیں۔ انجوائے کرتے ہیں اور ہلہ گلہ کرتے ہیں۔ کیا بڑے کیا بچے، فیملیز تو گھروں کو تالے لگا کر سینما میں اُمڈ آتی ہیں۔
پنجابی فلموں کے ہیروز امرندر گل، ایمی ورک، گیپی گریوال، امبر دیپ سنگھ بالی ووڈ ہیروز کے مقابلے میں مقبولیت حاصل کر تے جارہے ہیں۔ یہی نہیں پنجابی ڈائیلاگ کے تڑکوں اور پنجابی گانوں نے بھی اردو فلموں کی جیسے کمر ہی توڑ کر رکھ دی ہو۔
بڑے پردے پر کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والی فلموں میں رب دا ریڈیو، انگیرج، لانگ لاچی، بمبو کاٹ نے تو جیسے فلم بینوں کو پکڑ کر پنجابی کی طرف دھکیل دیا ہو کہ بس ،اب اردونہیں، پنجابی ہی چلے گی۔