روزینہ علی : قومی اسمبلی نے وفاقی بجٹ کی منظوری دے دی،قومی اسمبلی نےفنانس بل 2024۔25 کی منظور دی ،اپوزیشن کا اجلاس سے واک آؤٹ،نیا بجٹ یکم جولائی سے نافذ ہو جا ئے گا۔
قومی اسمبلی میں فنانس بل میں ترامیم کی شق وار منظوری دی گئی ،پٹرول اور ڈیزل پر لیوی 80 روپے کرنے کافیصلہ واپس لیا گیا،پٹرول اور ڈیزل پر لیوی 70 روپے کردی گئی۔ وزیرخزانہ محمد اور نگزیب نے کہا ہے کہ حکومت گرین انرجی کا فروغ چاہتی ہے۔سولر پینل پر کوئی ڈیوٹی نہیں لگارہے۔قومی اسمبلی نے نئے قرض پروگرام پر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مزید بات چیت سے قبل آئندہ مالی سال کے لیے حکومت کا بھاری ٹیکس سے بھرپور بجٹ منظور کر لیا جب کہ جنوبی ایشیا میں سب سے سست رفتار سے ترقی کرنے والا پاکستان بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے کوشاں ہے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ایوان کو بتایا کہ ہمیں حقیقت پر بات کرنی چاہیے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کیسا ہے، کرنسی اسٹیبل ہے اور یہ ایسے ہی رہے گی، سرمایہ کار واپس آرہے ہیں، پچھلے مہینے غذائی مہنگائی 2 فیصد پر تھی۔معیشت میں استحکام آیا ہے، ہم اس میں مزید بہتری لا رہے ہیں، گروتھ کی طرف جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح ساڑھے نو فیصد نہیں رہ سکتی، ہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے، جو ریلیف کی بات کرتے ہیں، اس کو ہم نے ساڑھے 13 فیصد پر لے جانا ہے، اس سلسلے میں لیکج ، کرپشن اور چوری کو روکنا ہے، ایف بی آر میں اصلاحات کرنی ہیں، اس کی ڈیجیٹلائزیشن کرنی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ نان فائلرز کی والی اختراع ہے، میرے اوپر چھوڑا جائے تو یہ اختراع ملک میں فی الفور بند ہو جانی چاہیے، اس کے لیے ہم نے ایک بہت اہم قدم اٹھایا ہے، آئندہ سال کے لیے ہم نے نان فائلرز کے لیے ریٹس کو بہت بڑھادیا ہےتا کہ وہ تین چار بار سوچے کہ اس کو اس ملک میں ٹیکس ادا کرنا چاہیے یا نہیں۔ہم نے ترقیاتی بجٹ ایوان میں پیش کردیا گیا، کمزور طبقات کے لیے جو بات ہوئی، اس میں کم از کم تنخواہ، یوٹیلٹی اسٹورز کی بات ہوئی ہے، ہم اس کو آگے لے کر جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اسی طرح سے نجکاری کی بات کی جا رہی ہے، یہ دو سے تین سال کا منصوبہ ہے جس پر عمل در آمد کیا جائے گا۔ٹیکس ٹو جی ڈی پی، ریاستی اداروں میں اصلاحات، انرجی، پاور سیکٹر کی اصلاحات بھی مجموعی طور پر اس بجٹ کا حصہ ہیں اور یہ ہمارے مستقبل کے روڈ میپ کا حصہ ہیں۔
قومی اسمبلی اجلاس میں سنی اتحاد کونسل کے مبین عارف نے کہا کہ پہلے ہی ملک میں کاروبار نہیں ہورہا دوسری طرف معمولی بھول چوک پر بھی دس سال کی سزا تجویز کردی گئی ،خدارا ٹیکس نظام کو بہتر بنائیں مگر بزنس مین کے ساتھ ایسی زیادتی نہ کریں ،حکومت کے تجویز کردہ ایسی صورت حال سے ایف بی آر بھی تھانے میں تبدیل ہو جائیگا ۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے جواب دیا کہ756 بلین روپے کا فراڈ ٹیکس نادہندگان کا ہوگا ہے، یہ ہلکی پھلکی نہیں ہے ،وزیر خزانہ نے اپوزیشن کی ترامیم کی مخالفت کرتے ہوئے مسترد کردیا
علی محمد خان کی بجٹ تجاویز پر وفاقی وزیرخزانہ کا جواب
سنی اتحاد کونسل کے رکن قومی اسمبلی علی محمد خان نے کہا ہے کہ بچوں کی سٹینشنری کی معمولی چیزوں پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے ،ربڑ، مارکر، پین جیسی چیزوں پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے ،انڈوسکوپی سمیت دیگر میڈیکل چیزوں پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے ،اب کوئی باہر سے اسپتالوں کو عطیہ کے طور پر مشینریز بھجوائے تو اس پر بھی ٹیکس دینا پڑے گا ،ایسا مت کریں، فارم 47 والے وزیراعظم سے کہتا ہوں اس معاملے پر غور کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نے انصاف کارڈ جاری کئے موجودہ حکومت کے ہر سہولت چھین لی،معلوم نہیں آپ کو قلم سے کیا تکلیف ہے، آپ کو پڑھنے سے کیا تکلیف ہے ،بابائے قوم بھی ایک بیرسٹر تھے اور قلم کے مزدور تھے۔
علی محمد خان نے ترامیم کے ذریعے بچوں کے دودھ، سٹیشنری آٹٹمز اور صحت کے آلات پر ٹیکس واپس لینے کی تجویز دی ،ایل پی جی اور لیپ ٹاپس پر ٹیکس بھی واپس لینے کی تجویز دی ، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ سٹیشنری ، دل کی بیماریوں سے متعلقہ آلات پر ٹیکس پہلے ہی واپس لیا جا چکا ہے ، ضروری نہیں کہ پیکجڈ دودھ کی حوصلہ افزائی کی جائے،ہمیں صحت مند قدرتی دودھ کی طرف جانا ہو گا ،پہلے ہی کتب، قلم اور میڈیکل ٹولز پر ٹیکس ختم ہوچکا ہے ،علی محمد خان کے شاید علم میں نہیں ہے یہ ترامیم پہلے ہی ہوچکی ہیں۔
پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے کہا ہے کہ چیئرمین پیپلز پارٹی کے مطالبے پر سٹیشنری اور میڈیکل ٹولز پر ٹیکس ختم کردیا گیا ہے ،ہم اس معاملے پر وفاقی حکومت اور خصوصاً وزیر خزانہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔