ویب ڈیسک : حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان مذاکرات کا دوسرا مرحلہ بھی مکمل ہوگیا، حکومت نے جماعت اسلامی کے 35 کارکنان کو فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا ۔
حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان روالپنڈی میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام دھرنے پر بات چیت کا دوسرا مرحلہ راولپنڈی کمشنر آفس میں مکمل ہوگیا، حکومتی وفد میں وزیر اطلاعات عطا تارڑ ، ڈاکٹر فضل چودھری اور وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و بلتستان امیر مقام شامل تھے جبکہ جماعت اسلامی وفد کی قیادت لیاقت بلوچ نے کی۔
مذاکرات کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے 35کارکنان کی فی الفور رہائی کا حکم دیا ہے،انہوں نے کہا کہ 200یونٹ والے صارفین کو 50 ارب کی سبسٹدی 2ماہ کیلئے دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا ہے ،ملک کو ڈیفالٹ سے بچانا جان جوکھوں کا کام تھا ،اخراجات میں کمی ، نجکاری اور معاشی اصلاحات سے عوام تک ریلف پہنچے گا ، حکومت کے اخراجات کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، جن حالات میں حکومت ملی یہ آسان کام نہیں تھا۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جماعت اسلامی کے 10 مطالبات ہیں،جماعت اسلامی کے مطالبات ، زراعت ، بجلی اور ٹیکس کے حوالے سے ہیں،ہم چاہتے ہیں عوام کو ریلیف دینے کے لئے کام کیا جائے،خوشحال اور خودمختار پاکستان کے لئے حکومت ہر ممکن اقدامات اٹھائے گی،روپے کا استحکام حکومت کا سب سے بڑا اقدام ہے، حکومتی اخراجات میں کمی کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں،معیشت کو بہتر کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے، مذاکرات کے اگلے دور میں ہماری کوشش ہے کہ معاملات خوش اسلوبی سے طے پائیں اور انہیں عزت کے ساتھ رخصت کیا جائے، دھرنے کے حوالے سے لیاقت باغ کے مقام کا تعین کیا گیا تھا،سڑکیں بند ہونے سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے پہلے ہی سولر ٹیوب ویلز کا منصوبہ شروع کیا، 38 ہزار سولر ٹیوب ویلز بلوچستان میں لگائے جا رہے ہیں، پنجاب، سندھ، اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کے ساتھ مل کر بینکنگ فنانس کے ذریعے ٹیوب ویلوں کو سولر پر منتقل کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، ہم گرین رینیو ایبل انرجی کی طرف بڑھ رہے ہیں، ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کر کے بجلی کے بلوں میں عوام کو ریلیف دیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکنیکل کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو مذاکرات کرے گی، ٹیکنیکل کمیٹی میں وزیر پانی و بجلی کو شامل کیا گیا ہے ، کمیٹی میں سیکرٹیری توانائی ، وزارت خزانہ اور ایف بی آر کے نمائندوں کو بھی شامل گیا کیا ہے، کل12بجے دوبارہ مذاکرات متوقع ہیں۔
اس موقع پر وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان امیر مقام کا کہنا تھا کہ جیب میں اگر 100 روپے ہو اورمطالبہ 200 روپے کا ہو تو 100 روپے کہاں سے آئیں گے ،ذرائع آمدن اور اخراجات دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے ،جماعت اسلامی کا احتجاج ریکارڈ ہوگیا ہے۔
طارق فضل نے بات کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی نے جو مذاکرات رکھے وہ ہی باتیں تمام عمائدین کررہے ہوتے ہیں، 200 یونٹ کے صارفین کے لیے 50 ارب روپے کی سبسٹدی دی ہے، انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی سے اچھے ماحول میں بات چیت ہوئی،اگلے دور میں بہتری کی امید ہے تاکہ دھرنا جلد سے جلد ختم ہو۔