سٹی 42: وزیراعظم عمران خان نے امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا کہ امن میں شراکت دار بن سکتے ہیں، تنازع میں نہیں۔ امریکا کو اڈے دیئے تو پاکستان پھر دہشتگردی کا ہدف بن جائے گا۔طالبان کو مذاکرات پر قائل کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ وزیراعظم نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ افغانستان میں خانہ جنگی پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، معاشی صورتحال کے سبب اس بار مہاجرین کو پناہ نہیں دے سکیں گے۔
وزیراعظم عمران خان کا امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں کہنا تھا کہ افغانستان میں ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانے کا امریکی بیانیہ نا انصافی پر مبنی قرار دے دیا۔افغانستان کے الزامات بھی مسترد کردیئے۔ پی بی ایس کو انٹرویو میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ امریکا نے افغانستان میں سب گڑ بڑ کر دیا۔ سب سے پہلے انہوں نے اس تنازع کو عسکری طاقت سے حل کرنے کی کوشش کی جبکہ یہ کوئی حل تھا ہی نہیں، عسکری کارروائی کی مخالفت پر مجھے طالبان خان کہا گیا۔
جب امریکا اور اتحادیوں نے طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کیا، اس وقت بد قسمتی سے ان کی سودے بازے کی طاقت ختم ہو چکی تھی۔ مذاکرات تب کرتے جب ڈیڑھ لاکھ فوج افغانستان میں تھی، اب طالبان خود کو فاتح سمجھ رہے ہیں، وہ مذاکرات کیوں کریں؟ ان کو مذاکرات پر آمادہ کرنا کافی مشکل ہو گیا ہے۔
افغانستان میں صدارتی الیکشن کے وقت امریکا اور طالبان میں مذاکرات جاری تھے۔ الیکشن ملتوی ہو جاتے تو طالبان کو سیاسی دھارے میں لایا جا سکتا تھا اور تنازع کا سیاسی حل نکل سکتا تھا، افغان تنازع کا واحد حل سیاسی تصفیہ کے ذریعے ایسی حکومت کی تشکیل ہے، جس میں طالبان سمیت تمام فریق شامل ہوں۔
بدترین صورتحال میں افغانستان طویل خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے، پاکستان پر اس کے دہرے اثرات ہوں گے۔ کثیر تعداد میں مزید افغان مہاجرین کی پاکستان آمد کا امکان ہے۔ معاشی صورتحال کے سبب مزید افغان شہریوں کو پناہ نہیں دے سکیں گے۔ دوسرا خدشہ یہ ہے کہ خانہ جنگی پاکستان میں داخل ہو سکتی ہے۔
افغانستان میں ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا شدید نا انصافی ہے۔ پاکستان کا نائن الیون سے کوئی تعلق نہیں تھا، القاعدہ افغانستان میں تھی، پاکستان میں کوئی طالبان جنگجو نہیں تھے، امریکی جنگ میں شمولیت نے پاکستان میں تباہی پھیلائی، ستر ہزار پاکستانی شہید ہوئے، معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
80 کی دہائی میں سوویت یونین کیخلاف جہادی گروپس امریکا نے تیار کرائے۔ غیرملکی قبضے کیخلاف لڑنے والوں کو نائن الیون کے بعد کہا گیا کہ اب یہ جہاد نہیں، بلکہ دہشتگردی ہے۔
عمران خان نے کہا پاکستان سے 10 ہزار جہادیوں کے افغانستان میں داخل ہونے کا الزام احمقانہ ہے افغان حکومت اس حوالے سےثبوت کیوں نہیں دیتی؟؟ افغان طالبان کو پناہ دینے کا الزام بھی سراسر غلط قرار دے دیا، پاکستان میں کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں۔
اگر لاکھوں مہاجرین کے کیمپوں میں طالبان موجود ہوں تو انہیں کیسے شناخت کریں؟ پہلے مہاجرین کو واپس بلائیں۔ پھر ہمیں الزام دیں کہ یہاں سے افغانستان کیخلاف کچھ ہو رہا ہے۔آدھے سے زیادہ افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہے، انہیں یہاں پناہ گاہوں کی کیا ضرورت ہے؟
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اب مزید کسی تنازع کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔امریکا کو اڈے دیئے تو پاکستان پھر دہشتگردی کا ہدف بن جائے گا، امن میں شراکت دار بن سکتے ہیں، تنازع میں نہیں۔
پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے، ہم نے طالبان کو امریکا کیساتھ مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور مستقبل میں بھی افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے سوا مزید کچھ نہیں کر سکتے۔