شہباز شریف کا افسر شاہی پر سحر برقرار

28 Jul, 2019 | 01:18 PM

قیصر کھوکھر

(قیصر کھوکھر) کیا پنجاب کی افسر شاہی ابھی تک سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے سحر سے نکل پائی ہے یا کہ نہیں، یہ ایک سوال ہے جو افسر شاہی کے حلقوں میں اکثر گشت کرتا رہتا ہے ، موجودہ وزیر اعلیٰ عثمان احمد بزد ارابھی تک پنجاب کی افسر شاہی میں ایک ہم خیال گروپ پیدا نہیں کر سکے ، وہ میاں شہباز شریف کی بیوروکریسی سے کام چلا رہے ہیں، ایوان وزیر اعلیٰ میں بیٹھے افسران میں سے کئی ایک سابق وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کےساتھ کام کر چکے ہیں اور پنجاب سول سیکرٹریٹ میں اکثر محکموں کے سیکرٹری میاں شہباز شریف کی کچن کیبنٹ کا حصہ رہے ہیں۔

میاں شہباز شریف نے پنجاب میں مسلسل دس سال حکومت کی ہے اور اس سے قبل جب میاں نواز شریف اور غلام حیدروائیں وزیر اعلیٰ تھے تب بھی درپردہ میاں شہباز شریف بیوروکریسی کے معاملات چلاتے تھے اور بیوروکریسی کی ٹرانسفر پوسٹنگ میں ان کا ایک بڑا حصہ ہوتا تھا۔ دورانِ وزارت اعلیٰ میاں شہباز شریف سیکرٹریوں سے براہ راست رابطہ رکھتے تھے اور حتیٰ کہ چیف سیکرٹری کو بھی درمیان میں نہ لاتے تھے وہ محکموں کے کثرت سے اجلاس کرتے تھے ۔ محکمہ کا وزیر تو کسی بھی کھاتے میں نہ ہوتا تھا ، نہ ہی محکمے کے وزیر کا محکمے پر کوئی اثر ہوتا تھا۔ تمام معاملات براہ راست ایوان وزیر اعلیٰ سے چلائے جاتے تھے، تمام تر اختیارات فرد واحد کے پاس ہوتے تھے ۔

 میاں شہباز شریف ارکان اسمبلی کی بات سنتے ضرور تھے لیکن فیصلہ خود کرتے تھے، وہ ایک ایک افسر کے بارے میں رپورٹ رکھتے تھے اور حتیٰ کہ افسران کو چھٹی بھی خود دیتے تھے اور انہوں نے اپنے دور میں بیوروکریسی کا ایک گروپ بھی تیار کر لیا تھا، جسے عرف عام میں” ڈی ایم جی نون“ کے نام سے پکارا اور لکھا جاتا تھااور انہوں نے کئی جونیئر افسران کو سینئر اسامیوں پر تعینات کر کے ان کی تربیت بھی اپنے انداز میں شروع کی تھی جن میں احد خان چیمہ، فواد حسن فواد، ڈاکٹر توقیر حسین شاہ شامل تھے میاں شہباز شریف نے جاوید محمود جو سابق چیف سیکرٹری پنجاب رہ چکے ہیں انہیں بھی دریافت کیا اوران کو سب سے پہلے جونیئر ہونے کے باوجود ڈی سی لاہور تعینات کیا اور بعد ازاں جونیئر ہونے کے باوجود چیف سیکرٹری پنجاب لگا دیا تھا اور اس طرح جاوید محمود نے سول سروس میں ڈی ایم جی نون کی بنیاد رکھی اور افسران کو چن چن کر میاں شہباز شریف سے ملوایا اور انہیں اہم ترین اسامیوں پر تعینات کیا گیا۔

 آج بھی وفاق میں اہم وزارتوں کے وفاقی سیکرٹریوں کا تعلق ڈی ایم جی نون سے ہے اور وہ مسلم لیگ نون کا ہر کام کر رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف اپنے دور میں سیکرٹریوں کے ذریعے حکومت کرتے رہے ہیں۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم سید علی مرتضیٰ، سیکرٹری بلدیات ڈاکٹر احمد جاوید قاضی، سیکرٹری خزانہ عبداللہ خان سنبل ، سیکرٹری ہاﺅسنگ نسیم صادق، سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈاکٹر راحیل احمد صدیقی، پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیر اعلیٰ ڈاکٹر شعیب اکبر، پرنسپل سیکرٹری ٹو گورنر پنجاب بابر حیات تارڑ، سیکرٹری سکولز ایجوکیشن محمد محمود، سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو شہریار سلطان، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو شوکت علی سمیت زیادہ تر وہی افسران ہیں جو ماضی میں میاں شہباز شریف کے انتہائی قریب رہے ہیں اور مسلم لیگ نون کی حکومت میں اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں اور آج یہ دوبارہ پی ٹی آئی کی حکومت میں بھی حکمرانوں کی آنکھ کا تارا ہیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان احمد بزدار ابھی تک بیوروکریسی میں اپنی ایک ٹیم ہی نہیں بنا سکے ۔حالانکہ وہ پنجاب کی افسر شاہی کی تنخواہوں میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ بھی کر چکے ہیں اور انہوں نے گزشتہ دنوں پنجاب سول سیکرٹریٹ میں افسران سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ افسران مسلم لیگ ن کو اب بھول جائیں اور مسلم لیگ ن کے ساتھ وابستگی ختم کر دیں اور پی ٹی آئی کی حکومت سے اپنا تعلق جوڑیں گو کہ اس وقت چیف سیکرٹری پنجاب یوسف نسیم کھوکھر کی مکمل وابستگی بلا شبہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے ساتھ ہے لیکن ابھی تک وہ چپ چپ کام کر رہے ہیں جس طرح جاوید محمود نے ”ڈی ایم جی نون گروپ“ کی بنیاد رکھی تھی اس طرح کا انہوں نے ابھی تک کوئی کام نہیں کیا ۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن (ر) اعجاز احمد وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ جس طرح بیوروکریسی نون لیگ کے ساتھ اٹیچ تھی اس طرح کی پی ٹی آئی کے ساتھ اٹیچ منٹ کی صورت حال ابھی تک نہیں بن سکی ہے۔

 عثمان بزدار مانگی تانگی بیوروکریسی سے حکومت چلا رہے ہیں۔ اپنا ہم خیال گروپ بنانے کی بجائے ابھی تک وہ بیوروکریسی کو مکمل طور پر ایک پیشہ ور اور غیر جانبدار بیوروکریسی بھی نہیں بنا سکے۔ افسران اکثر دفاتر میں بیٹھے سیاسی معاملات اور پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کی حکومت عوام میں اپنا مقام کھو چکی ہے ، مہنگائی اور ٹیکسوں کی وجہ سے ایک عام بندہ پی ٹی آئی کی حکومت سے نالاں ہے اور پی ٹی آئی کے حکومتی ارکان اسمبلی کی اکثریت کی بجائے اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی حمایت پر کھڑے ہیں۔ جب تک اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہوگی حکومت رہے گی، جس دن اسٹیبلشمنٹ اور ملک کے مقتدر حلقوں نے حمایت چھوڑ دی اسی دن حکومت کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ افسر شاہی ابھی سوچ بچار میں مصروف ہے کہ وہ کیا کرے، کیا نہ کرے۔ بیوروکریسی کو شہباز شریف کے حصار اور سحر سے نکالنے کے لئے پی ٹی آئی کی حکومت اور عثمان بزدار کو کافی کچھ کرنا پڑے گا۔ شہباز شریف جس انداز میں افسر شاہی سے کام لیتے تھے ،اس طرح ابھی تک عثمان بزدار کچھ بھی نہیں کر سکے ۔ ابھی تک تو یہی تعین نہیں ہو سکا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ کون ہے؟ کون حکومت چلا رہا ہے ؟اور بیوروکریسی کے تقرر و تبادلوں کے اختیارات کس کے پاس ہیں؟۔

چیف سیکرٹری پنجاب ، ایوان وزیر اعلیٰ اس طرح کے طاقتور نہیں ہیں جیسے وہ میاں شہبازشریف کے دور میں ہوتے تھے۔ عثمان بزدار کو افسر شاہی کو قریب لانے کیلئے ابھی کام کرنا ہوگا اور یہ کہ گزشتہ ایک سال میں ایسا کچھ بھی نہیں کیا جا سکا ہے۔بیوروکریسی ایک گھوڑاہے، جس پر سوار کی گرفت مضبوط ہوتو وہ ریس جیت جاتا ہے اور گرفت نہ ہوتو منہ زور گھوڑا اپنے ہی سوار کو گرا دیتا ہے۔ اس حوالے سے سردار عثمان بزدار کو اپنی ایک الگ پالیسی بنانا ہوگی اور اس کے تحت ہی بیوروکریسی سے کام لینا ہوگا۔ وزیراعلیٰ نے بیوروکریسی کیساتھ اچھاتعلق بنا لیاتو صوبے میں کامیابی ہی کامیابی ملے گی بصورت دیگر کام ہونے کے باوجود کارکردگی دکھائی نہیں دے گی۔

مزیدخبریں