سحرش انیس: تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد متوقع وزیراعلیٰ پنجاب کی دوڑمیں شامل ہوگئیں۔ پارٹی کی جانب سے مخصوص نشست سےڈاکٹریاسمین راشدکووزیراعلیٰ بنانےپرغور کیا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق پارٹی نےلانگ ٹرم اورشارٹ ٹرم پالیسی پرغورشروع کردیا ہے۔ ڈاکٹریاسمین راشدعمران خان سےملاقات کیلئےاسلام آبادروانہ ہوگئیں۔ ذرائع کاکہناہے کہ ڈاکٹریاسمین کوآرٹیکل131کےتحت وزیراعلیٰ بنایاجاسکےگا۔واضح رہے کہ پی ٹی آئی کی جانب وزیر اعلیٰ کیلئےعلیم خان، شاہ محمود قریشی، چودھری محمد سرور کے نام بھی زیر غور ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چند گھنٹوں میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی
ذرائع کے مطابق سینیٹر چودھری محمد سرور بھی وزیراعلیٰ کی کرسی کی دوڑ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کا الیکشن تو وہ پہلے ہی لڑنا چاہتے تھے لیکن عمران خان کے کہنے پر الیکشن میں حصہ نہیں لیا تھا اب حالات سازگار ہونے کے باعث ضمنی الیکشن میں جانے کے خواہشمند ہیں۔جبکہ شاہ محمود قریشی تو پہلے سے ہی وزارت اعلی کے عہدے پر فائز ہونے کے خواہاں تھے، اسی لیے انھوں نے ملتان سے صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن لڑا تھا جو کہ وہ ہار گئے ، اب ان کی جانب سے دوبارہ سوچا جارہا ہے کہ وہ ضمنی الیکشن میں حصہ لیں اور کامیابی حاصل کر کے وزیر اعلی کے عہدے پر فائز ہوں۔
پڑھنا مت بھولیں: عام انتخابات 2018، لاہور میں بڑے بڑے برج اُلٹ گئے
اس وقت صوبہ پنجاب کے اقتدار کا معاملہ کافی دلچسپ ہے ۔ الیکشن کمیشن کے ڈیٹا کے مطابق پنجاب اسمبلی کی 297 نشتوں میں سے 127 میں ن لیگ جبکہ 122 میں پی ٹی آئی امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ دونوں پارٹیوں کی نظر اس وقت آزاد امیدواروں اور باقی پارٹیوں کے امیدواروں کی جانب ٹکی ہوئی ہیں۔ دونوں پارٹیوں نے ایم پی ایز کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے ان کے ناز نخرے اٹھانے کا کام شروع کردیا ہے اور اس کام کو ابھی تک پی ٹی آئی کی جانب سے بخوبی سر انجام دیا گیا ہے۔ رات گئے پی ٹی آئی کے وفادار اور عمران خان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین نے جنوبی پنجاب سے 4 آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی میں شامل کرلیا۔ ان امیدواروں میں ڈی جی خان سے حنیف پتافی،لیہ سے رفاقت گیلانی، کبیروالا سے حسین جہانیاں گردیزی،مظفرگڑھ سے علمدار قریشی شامل ہیں۔
اہم خبر: پی ٹی آئی کے امیدوار علیم خان کی کامیابی چیلنج
ان دونوں کے برعکس آزاد امیدواروں کی توجہ کا محور ق لیگ بنی ہوئی ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی میں سے جو جماعت ق لیگ کو اپنی طرف مائل کرلے گی وہی پنجاب کی حکومت پر راج کرے گی اور عین ممکن ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی ق لیگ کے مضبوط امیدوار پرویز الہیٰ ہوں۔ واضح رہے کہ چودھری پرویز الہیٰ 2003 سے 2007 تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور پنجاب میں انھوں نے کئی ترقیاتی کام کیے جن میں ایمبولینس سروسز 1122 قابل تحسین ہے ۔
پنجاب کی حکومت ملک کی سیاست کا اہم حصہ ہے اور اس پر حکومت کی اہمیت باقی تمام صوبوں سے زیادہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب کی حکومت کا سہرا کس کے سر سجتا ہے اور اس بات کا فیصلہ آئندہ کچھ دنوں میں ہوگا۔