اسرائیل کی سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس اسحٰق امیت کو سولہ مہینے کے تعطل کے بعد سپریم کورٹ کے مستقل صدر کے عہدہ پر تعینات کر دیا گیا۔ اسرائیل کی اتحادی حکومت کے وزیر انصاف یاریو لیون کی شدید مخالفت کے سبب حکومت جسٹس اسحاق کا تقرر 16 ماہ تک ٹالتی رہی لیکن آخر جسٹس اسحاق ہی کو مستقل صدر مقرر کرنا پڑا۔ جوڈیشل سلیکشن کمیٹی نے جسٹس اسحاق امیت کو اسرائیل کی اعلیٰ عدالت کا سربراہ منتخب کیا۔
امت کو کمیٹی کی پانچ گھنٹے کی سماعت کے بعد منتخب کیا گیا جس کے دوران جسٹس کے خلاف مِس کنڈکٹ کے حالیہ الزامات کا مفصل جائزہ لینا پڑا جو غالباً اس تقرر کو ٹالنے کی آخری کوشش کے طور پر تھوپے گئے تھے۔ جسٹس اسحاق نے سپریم کورٹ کے قائم مقام صدر کے طور پر گزشتہ چار ماہ سے خدمات انجام دی ہیں انہیں "لبرل" اور ڈیموکریٹک طرز فکر کا مالک سمجھا جاتا ہے اور نیتن یاہو کی اتحادی حکومت کے بعد زیادہ دائیں بازو کے وزرا اور ارکان ان کے تقرر سے خوفزدہ رہے ہیں۔
لیون نے، کمیٹی کے دیگر اتحادی نمائندوں کے ساتھ مل کر سیٹلمنٹ منسٹر اورٹ سٹروک اور اوتزما یہودیت کے کنیست کے رکن اضحاک کروئزر نے جوڈیشل سلیکیشن کمیٹی کی اس سماعت کا ہی بائیکاٹ کیا جس نے جسٹس اسحاق کو مستقل سڈر مقرر کیا۔ دراصل جوڈیشل کمیٹی کیا یہ خاص اجلاس ہائی کورٹ آف جسٹس کے حکم پر کیا گیا کیونکہ اتحادی حکومت یہ اجلاس بلانے کے عدالتی حکم کو ایک ماہ سے ٹال رہی تھی اور اب عدالت مزید ٹال متول کی اجازت نہین دے رہی تھی۔ اتحادی حکومت نے جوڈیشل سیلیکشن کمیٹی میں جسٹس اسحاق کا تقر روکنے کی غرض سے اس کمیٹی کی کمپوزیشن ہی تبدیل کرنے کی بھی کوش کی لیکن وہ قانون سازی کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی اور اس دوران عدالت کی دی ہوئی مہلت تمام ہو گئی۔
اس سے پہلے اتحادی حکومت نے گزشتہ قائم مقام چیف جسٹس کا بھی مستقل تقرر نہیں ہونے دیا تھا اور انہیں قائم مقام چیف جسٹس کی حیثیت سے ہی ریٹائرڈ ہو جانا پڑا تھا۔
اوزی فووگل مین Uzi Fogelman اسرائیل کی سپریم کورٹ کے سابق جسٹس نے 16 اکتوبر 2023 سے 1 اکتوبر 2024 تک اسرائیل کی سپریم کورٹ کے قائم مقام صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ جسٹس فووگلمین نے اسرائیلی جیورسٹ پروڈنس پر گہرا اثر ڈالا، اور خاص طور پر سپریم کورٹ میں ایک لبرل جسٹس کے طور پر اپنے وقت کے دوران، اسرائیل میں اقلیتی کمیونٹیز کے حقوق کو آگے بڑھانے والے متعدد احکام جاری کیے تھے۔
جسٹس امیت کے خلاف حالیہ الزامات کا لب لباب یہ تھا کہ انہوں نے کئی مقدمات کی سماعت کی جن میں ان کے مفادات کے ٹکراؤ کا امکان تھا، ان الزامات کی آڑ میں وزیر انصاف لیون کو جسٹس اسحاق کے تقرر میں مزید تاخیر کرنے کا کچھ موقع دیا لیکن ہائی کورٹ نے ان سے کہا کہ ان دعووں کا جائزہ لینے کے لیے بھی متعلقہ ادارہ جوڈیشل سلیکشن کمیٹی ہی تھی۔
عدالتی حکم کے باوجود لیون نے خود جوڈیشل سیلیکشن کمیٹی کی میٹنگ نہیں بلائی لیکن اسرائیل کورٹس ایڈمنسٹریشن کے ڈائریکٹر جج زاہی اوزییل، جو کمیٹی کے سیکرٹری کے طور پر کام کرتے ہیں، انہوں نے جوڈیشل کمیٹی کا اجلاس بلا کر نئے چیف جسٹس کا انتخاب کروا دیا۔
چیف جسٹس اسحاق کے تقرر کے بعد انصاف کے وزیر لیون نے اس تقرر کو پولیٹیسائز کرنے کا نئے سرے سے آغاز کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ "جمہوریت کے لیے ایک افسوسناک دن ہے، اور ہمارے قانونی نظام کے لیے ایک افسوسناک دن ہے،" قدامت پرست وزیر انصاف نے یہ بھی کہا کہ (لبرل ڈیموکریٹ خیالات کے مالک) جسٹس امیت عوام کے اعتماد سے لطف اندوز نہیں ہوں گے، وزیر نے مزید دھمکی آمیز رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا، "وہ اس وقت تک کام کرنا بند نہیں کریں گے جب تک کہ ہم اس شرمناک صورتحال کو اس کی بنیاد پر ٹھیک نہیں کر لیتے۔
قائد حزب اختلاف یائر لاپڈ نے امیت کے انتخاب کا خیرمقدم کیا تاہم اسے "جمہوریت اور مناسب انتظامیہ کی فتح" قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ تقرری میں "غیر ضروری تاخیر" نے "اسرائیل میں قانون کی حکمرانی کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔"