ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

متنازع پیکا ایکٹ؛ ملک بھر  میں صحافیوں کے احتجاج

متنازع پیکا ایکٹ؛ ملک بھر  میں صحافیوں کے احتجاج
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک : متنازع پیکا ایکٹ کے خلاف پورے ملک میں  صحافی سڑکوں پر نکل آئے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

 لاہور میں ہونے والے احتجاج میں صدر لاہور پریس کلب ارشد انصاری نے کہا کہ، ہم چپ ہوکر بیٹھنے والے نہیں ، اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے، قومی و صوبائی اسمبلیوں کا بائیکاٹ کریں گے، عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گے۔احتجاج میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔

اسلام آباد میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے)  نے  زنجیریں پہن کر مظاہرہ کیا اور ڈی چوک میں دھرنا بھی دیا۔پولیس نے پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ کو روکنے اور حراست میں لینے کی کوشش کی۔ اس موقع پر افضل بٹ   نے کہا کہ حکومت کو اندازہ ہی نہیں وہ کیا کھیل کھیلنے جارہی ہے، کسی کو آزادی صحافت پر حملے کی اجازت نہیں دیں گے۔

کراچی پریس کلب کے باہر بھی صحافیوں نے احتجاج کیا اور کہاکہ صحافت کے حق کو کچھ ریاست کے عناصر اپنے قابو میں رکھنا چاہتے ہیں، حکومت کو پیغام دینا چاہتے ہیں ایسا نہیں چلے گا۔احتجاج میں سول سوسائٹی کے کارکنوں اور وکلا نے بھی شرکت کی۔

کوئٹہ اور خضدار سمیت بلوچستان کے مختلف شہروں میں بھی متنازع پیکا ایکٹ کے خلاف صحافیوں کے مظاہرے ہوئے۔ اس کے علاوہ گوجرانوالہ، رحیم یار خان، بہاولنگر، کمالیہ، حیدرآباد، ٹنڈوالہ یار، ٹنڈومحمد خان اور سیہون میں بھی ریلیاں نکالی گئیں۔

 قومی اسمبلی کے بعد آج سینیٹ نے بھی انسداد الیکٹرانک کرائمز (پیکا)  ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کر لیا۔ جس پر صحافیوں نے سینٹ سے واک آوٹ بھی کیا 

پیکا ایکٹ ترمیمی بل  کیا ہے؟
ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہو گی اور سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں پر فرد 24 گھنٹے میں درخواست دینے کا پابند ہو گا۔

ترمیمی بل کے مطابق فیک نیوز پر پیکا ایکٹ کے تحت 3 سال قید اور 20 لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جاسکیں گی، غیرقانونی مواد کی تعریف میں اسلام مخالف، ملکی سلامتی یا دفاع کے خلاف مواد اور جعلی یا جھوٹی رپورٹس شامل ہوں گی، غیرقانونی مواد میں آئینی اداروں بشمول عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف مواد شامل ہوگا۔غیرقانونی مواد کی تعریف میں امن عامہ، غیرشائستگی، توہین عدالت، غیر اخلاقی مواد بھی شامل ہوگا اور غیرقانونی مواد میں کسی جرم پر اکسانا بھی شامل ہوگا۔ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی 9 اراکین پر مشتمل ہو گی جس میں سیکرٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا اتھارٹی کے ایکس آفیشو اراکین ہوں گے، بیچلرز ڈگری ہولڈر اور فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ کار اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جا سکے گا اور چیئرمین اور پانچ اراکین کی تعیناتی 5 سال کے لیےکی جائے گی۔

حکومت نے سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا ہے، پانچ اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ ویئر انجنئیر بھی شامل ہوں گے، اس کے علاوہ اتھارٹی میں ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔