ویب ڈیسک:الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دھمکیاں دینے کے مقدمے میں رہنما پی ٹی آئی فواد چودھری کا جسمانی ریمانڈ مسترد ہونے کا فیصلہ عدالت میں چیلنج کر دیا گیا۔
پولیس کی جانب سے مورخہ 28 جنوری ہفتے کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے فیصلے کے خلاف سیشن جج کے سامنے اپیل دائر کی گئی۔ دائر کی گئی درخواست میں جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص احمد راجہ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ مجسٹریٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیکر رہنما تحریک انصاف فواد چوہدری کا مزید جسمانی ریمانڈ دیا جائے، سیشن جج نے پولیس کی درخواست پر نوٹس جاری کر دیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز 27 جنوری کو جوڈیشل مجسٹریٹ نے فواد چودھری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں 14 روز کیلئے اڈیالہ جیل منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔
سماعت کا آغاز ہوا تو پراسیکوٹر نے فواد چوہدری کی مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اپنایا تھا کہ فواد چودھری کی وائس میچنگ ہوگئی، فوٹو گرامیڑک ٹیسٹ کے لیے ملزم کو لاہور سے لے جانا ہے، مزید جسمانی ریمانڈ درکار ہے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا تھا کہ فواد چودھری کے بیان کا مقصد الیکشن کمیشن کو دیوار سے لگانا ہے۔
اس موقع پر فواد چوہدری کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ایٹمی ریاست کو موم کی گڑیا بنایا ہوا ہے، فواد چوہدری کے چہرے پر پردہ ڈالا گیا، فواد چوہدری کوئی کلبھوشن نہیں ہے، یہاں دہشت گردی کو پکڑنے والی فورس فواد چوہدری کے لیے کھڑی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان نے کہا کہ مجھے میرے منشی پر فخر ہے، میرے منشی کو سپریم کورٹ میں بھی میرے ساتھ کھڑے ہونے کی اجازت ہے، یہ منشی سے اتنا چڑتے کیوں ہیں ؟ ہمیں تو فخر ہے اپنے منشیوں پر، جس ادارے نے الیکشن کروانا ہیں وہ مدعی بنا ہوا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اس کے پیچھے جو جو ہیں سب کو گرفتار کر لیں، پھر تو پورے پاکستان کو جیل بنا دیں اور سب کو قیدی قرار دے دیں۔
بابر اعوان نے یہ بھی کہا کہ یہ کہتے ہیں کہ بولتا ہے، یہاں ایک آیا تھا جو کہتا تھا ڈالر 100 روپے کا کر دوں گا وہ بھی تو بولتا ہے، ایک مخصوص بولنے والوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے، ججز کے بارے میں کیا کیا نہیں کہا گیا وہ اب وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں۔
اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے بابر اعوان نے کہا کہ پراسیکیوشن کہتی ہے مزید ملزمان کو ڈھونڈنا ہے، پولیس جس کو پکرتی ہے کہتی ہے لاہورمیں بیٹھے شخص کا نام لے لو، پی ٹی آئی رہنما شیرکے بچے ہیں لاہور میں بیٹھنے والے کا نام نہیں لیتے، سارے ثبوت اور لیب لاہور میں ہیں، جب لاہورہائیکورٹ ملزم کا پوچھ رہی تھی تو اسلام آباد لے آئے، پراسیکیوشن نہیں بتا رہی یہ فواد چوہدری سے چاہتے کیا ہیں، فواد چوہدری نے آگ لگانے کا نہیں کہا، پاکستان میں وکلا قتل ہو رہے ان پرحملے ہو رہے ہیں، جن وکلا کو قانون کی بالادستی کا شوق ہے تو پرائیویٹ وکالت کرنے کی ہمت کریں۔
اس موقع پر جج نے ریمارکس دیئے کہ دلائل دینا حق ہے لیکن تھوڑا مختصر کردیں،جس پر بابر اعوان نے کہا کہ میں دو دن دلائل کیلئے لوں گا اور آج تو میرا جنم دن بھی ہے، اس پر عدالت میں وکیل بابراعوان کو جنم دن کی مبارکباد دی گئی۔
بابر اعوان نے بات جاری رکھی اور مزید کہا کہ الیکشن کمیشن میرے خلاف مقدمہ میں مدعی ہے، الیکشن کمیشن سےانتخابات میں انصاف کیسےمانگوں؟، کلبھوشن پراسیکیوشن کا کزن ہے؟ کیوں نہیں پوچھتےاس سے؟، دنیا میں آزاد عدلیہ کا کوئی تصور نہیں، فرخ حبیب نے ویگو ڈالے کو روکنے کی کوشش کی اس پر مقدمہ ہوگیا، مقدمے میں کہا31 ویگوڈالے تھے اس پر فرخ حبیب نے ڈکیتی کرنے کی کوشش کی، فواد چوہدری دہشت گرد نہیں ہیں، کوئی ایک پرچہ بغاوت کا عدالت کے سامنے پراسیکیوشن لے آئے۔
دلائل کے دوران فواد چودھری کے وکیل بابر اعوان کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی کہ فواد چوہدری کو مقدمے سے ڈسچارج کیا جائے، جج نے کمرہ عدالت میں فواد چوہدری کی ہتھکڑی کھولنے کی استدعا منظورکرتے ہوئے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر کچھ دیر کیلئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
بعد ازاں عدالت نے پولیس کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے فواد چوہدری کو اڈیالہ جیل منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت کی جانب سے فواد چوہدری کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ دیا گیا۔ جج وقاص احمد نے ریمانڈ کی درخواست پر فیصلہ سنایا۔
واضح رہے سابق وفاقی وزیر و پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ فواد چودھری کے خلاف الیکشن کمیشن کے ممبران کو دھمکانے پر مقدمہ درج ہے۔ فواد چودھری پر سیکریٹری الیکشن کمیشن کی درخواست پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔