سٹی42: الیکشن کمیشن آف پاکستان نےاسلام آباد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو جائز پارلیمانی پارٹی تسلیم کرنے اور اس کو سیڈول میں مقرر وقت پر درخواست جمع کروائے بغیر مخصوص نشستیں دینے یا نہ دینے کے متعلق چھ درخواستوں کو یکجا کر کے ان کی سماعت کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے تمام ارکان پر مشتمل کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی پارٹی تسلیم کرنے یا نہ کرنے اور اسے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں دینے یا نہ دینے کے معاملے پر سماعت کی جس سلسلے میں سینئیر قانون دان اور سابق وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک، سینئیر قانون دان اور سابق وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ۔ سینئیر قانون دان اور سابق وزیر قانون فروغ نسیم، سینئیر قانون دان اور قانون ساز سینیٹر کامران مرتضیٰ، سنی اتحاد کونسل کے وکیل علی ظفر،ور دیگر نے دلائل دیئے۔
سنی اتحا دکونسل کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نےکل آرڈر کیا کہ تمام درخواستوں کو یکجا کرنا ہے، الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا اسمبلی میں موجود تمام جماعتوں کو نوٹس کیا جائے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ رات کو نوٹس کریں اور صبح جماعتیں تیار ہوں، اس سماعت کو معنی خیز کریں۔
اس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہم نے سب جماعتوں کو نہیں اسمبلی کی متعلقہ جماعتوں کو بلایا ہے، علی ظفر نے جواب دیاکہ الیکشن کمیشن کا آرڈر بے معنی نہیں ہوسکتا۔
ایم کیو ایم نے کہا ہمیں سندھ اسمبلی میں نشستیں دی جائیں، آج میری درخواست سماعت پر پہلے نمبر پر لگی ہے۔ آپ نے میری درخواست کوالتوامیں رکھا۔ جب باقی درخواستیں آئیں توپھر میری درخواست سماعت کے لیے مقرر کی۔ اس سے پہلے میری درخواست مقرر نہیں کی۔ آپ کے ذہن میں کوئی سوال تھا اس لیےآپ نے سماعت کے لیے مقررکیا۔ ورنہ آپ مختص سیٹ کا اعلان کر سکتے تھے۔
غیر معمولی صورتحال ہے، علی ظفر
علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار مختلف نشانات پر الیکشن لڑے،اسمبلی میں آزاد ارکان سیاسی جماعتوں کے منتخب ارکان سے زیادہ ہیں، ابھی غیر معمولی صورت حال ہے، پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد امیدواوں کی اسمبلی میں اکثریت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آزاد امیدواروں کوکوٹے پرکیسے مخصوص نشست مل سکتی ہے۔ یہ سوال ہے، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں آزاد ارکان میں سےبہت سوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔
سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت ہے جسے انتخابی نشان ملا، علی ظفر
علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ آپ نے جس جماعت کو رجسٹرکیا اور نشان بھی دیا وہ سیاسی جماعت ہے، الیکشن کمیشن کی فہرست میں پی ٹی آئی رجسٹرڈ جماعت ہے، نشان مل جائے تو الیکشن ایکٹ کے تحت وہ جماعت الیکشن لڑ سکتی ہے، ایس آئی سی سیاسی جماعت ہے جسے نشان ملا، آرٹیکل 17 کے مطابق ہرشہری ماسوائے سرکاری ملازم کو سیاسی جماعت بنانے اور اس میں شامل ہونےکا حق ہوگا۔
علی ظفر نے کہا کہ میرا موقف یہ ہے کہ آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کیلئے اہل ہے۔اس معاملے میں صرف پارٹی کا ذکر ہے۔پارلیمنٹری پارٹی کا ذکر نہیں۔
الیکشن کمیشن کے ممبر پنجاب کا سوال
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ممبر پنجاب نے سماعت کے دوان سوال کیا کہ "مخصوص نشستوں کی لسٹ پارلیمانی پارٹی یا پارٹی ہیڈ دے گا ?"
علی ظفر نے جواب دیا، "مخصوص نشستوں کی لسٹ پارٹی ہیڈ دے گا"
سنی اتحاد کونسل نے کوئی ترجیحی لسٹ ہی نہیں جمع کروائی، قانون میں نام تبدیل کرنے کی گنجائش نہیں
سینئیر قانون دان اور سابق وزیر قانون پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ سنی اتحادکونسل نےکوئی ترجیحی فہرست جمع نہیں کرائی، سیاسی جماعت کاغذات نامزدگی جمع کرانےکی تاریخ گزرجانےکے بعد ترجیحی لسٹ میں ترمیم بھی نہیں کرسکتی، قانون اتناسخت ہے کہ آپ کوئی نام تبدیل بھی نہیں کرسکتے، مخصوص نشست کی لسٹ صرف ختم ہونے پرنیا نام دیا جاسکتا ہے، سنی اتحادکونسل صرف مخصوص نشست حاصل کرنے کے لیے اس وقت فہرست نہیں دےسکتی۔
سنی اتحاد کونسل نے الیکشن ہی نہیں لڑا۔ اسے مخصوص نشستیں کیسے دیں
سینئیر قانون دان اور سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا دلائل میں کہنا تھا کہ ترجیحی فہرست قانون کے مطابق دی جائے گی، ایسی جماعت جس نے الیکشن میں حصہ نہیں لیاکیا آزاد ارکان اس میں شامل ہوسکتے ہیں؟ مخصوص نشست کے دعوے کیلئے سیاسی جماعت کوچند سیٹیں جیتنا لازم ہے، الیکشن میں حصہ لیں،کچھ سیٹیں لائیں تو آزاد ارکان ملاکربڑھاسکتے ہیں لیکن سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا۔
قانون کی نظر میں سنی اتحاد کونسل پارلیمانی پارٹی نہیں
سینئیر قانون دان اور سابق وزیر قانون ایم کیو ایم کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قانون کی نظر میں سنی اتحاد کونسل پارلیمانی جماعت نہیں، روکی ہوئی مخصوص نشستیں ایم کیو ایم کو کوٹے کے مطابق دی جائیں ، سنی اتحاد کونسل نے جنرل الیکشن لڑا نہ ترجیحی فہرست جمع کرائی، سنی اتحاد کونسل کے سربراہ نے خود آذاد حیثیت میں الیکشن لڑا، الیکشن کمیشن آئین، قانون کے مطابق مخصوص نشستوں پر فیصلہ کرے۔
قانون واضح ہے، اسمبلیوں میں نشستیں ان پارٹیوں کو ملیں گی جن کی فہرستیں جمع ہوئیں
سینئیر قانون دان اور قانون ساز سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہم اس کیس میں نہیں تھے،آپ نے بلایا تو آئے ہیں، قانون میں ہے جس جماعت کا جتنا حصہ ہے وہ اسے ملتا ہے۔ آزاد امیدواروں کو مخصوص نشست نہیں مل سکتی تھی، سیاسی جماعت کی فہرست ایگزاسٹ ہونے پر اس میں نیا نام شامل ہوسکتا ہے۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے واضح کیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے الیکشن شیڈول میں مقرر کی گئی تاریخ گزر جانےکے بعد کوئی سیاسی جماعت نئی ترجیحی فہرست جمع نہیں کراسکتی۔ صرف موجودہ لسٹ میں نام شامل کرسکتی ہے، اب اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں کی تقسیم ان پارٹیوں میں ہوگی جنہوں نے بروقت اپنی ترجیحی لسٹ دی ہے ۔
الیکشن کمیشن نے تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی پارٹی ماننے یا نہ ماننے اور اسے مخصوص نشستیں دینے یا نہ دینے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔