کل میں نے جے ایف تھنڈر بارے لکھا تھا یہ طیارہ کم قیمت ہونے اور 27 فروری 2019 کو بھارتی فضائیہ کے مگ-21 بائسون طیارے جس پر ابھی نندن سوار تھے کو گرانے کے بعد دنیا کی نظروں میں آیا ابھی نندن کے جہاز کو پاکستانی فضائیہ کے اسکواڈرن لیڈر حسن صدیقی نے جے ایف-17 تھنڈر طیارے سے نشانہ بنایا اور مار گرایا تھا ، لیکن فضائی برتری کا مشن ابھی باقی تھا کہ بھارت فرانس سے جدید رافیل طیارے خرید رہا تھا اس لیے پاکستان کے پاس دو آپشن تھے امریکہ پر انحصار یا روس اور چین پر اعتماد ماضی کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے روس سے ایس یو 35 طیاروں کا معاہدہ کیا یہ معاہدہ عمران خان نے کیا تھا لیکن یو کرائن وار کے باعث یہ طیارے ابھی بھی پاکستان نہیں پہنچے اس صورتحال میں پاکستان نے معاون دوست چین کی مدد سے "10 سی" نامی طیارہ بنانے کا فیصلہ کیا اس کے لیے انجن روس سے منگوایا جانا تھا ابتدائی طیارے چین میں تیار ہوں گے لیکن مکمل ٹیکنالوجی بمعہ انجن کی تیاری کے بہت جلد تو ممکن نہیں لیکن امید ہے کہ پاکستان اس میں کامیابی حاصل کر لے گا ،یہ ایک نئے دور کا آغاز ہوگا اور اس سے پاکستان کو کس طرح کتنا فائدہ حاصل ہوگا وہ اب لکھتا ہوں
جے ایف 17 تھنڈر پاکستان کی دفاعی قوت میں وہ اضافہ نہیں کرتا جو ایف 16 کرتا ہے اس لیے پاکستان کو ایک ایسے طیارے اور جے-10 سی دونوں ہی اہم جنگی طیارے ہیں، لیکن ان کی خصوصیات اور اہلیت مختلف ہیں۔ دوسری جانب جے-10 سی چین کا بنایا ہوا جدید چوتھی نسل کا لڑاکا طیارہ ہے، جو زیادہ طاقتور AESA ریڈار، ایڈوانسڈ الیکٹرانک وارفیئر سسٹمز، اور زیادہ وزن اٹھانے کی صلاحیت کے ساتھ پیچیدہ اور طویل دورانیے کے مشنز کے لیے موزوں ہے۔ جے-10 سی جدید ترین ٹیکنالوجی اور جنگی اہلیت کے لحاظ سے زیادہ بہتر ہے، لیکن جے ایف-17 تھنڈر اپنی کم قیمت اور معاشی خود مختاری کی وجہ سے پاکستان کے دفاعی نظام میں ایک مضبوط حیثیت رکھتا ہے،10 سی جنگی طیارے کے انجن کا تعلق ابتدائی طور پر روس سے ہے۔ یہ طیارہ AL-31F انجن کا استعمال کرتا تھا، جو روسی کمپنی Saturn نے تیار کیا تھا۔ تاہم، چین نے حالیہ برسوں میں اپنے انجن کی تیاری پر بھی توجہ دی ہے، اور اب جے-10 سی کے جدید ورژنز میں چین کا تیار کردہ ہے اس میں ڈبلیو بی 10 سی انجن استعمال کیا جا رہا ہے،روس کے انجنز کی کارکردگی قابلِ تعریف ہے، لیکن چین اپنی انجن ٹیکنالوجی کو خودمختار بنانے کے لیے مسلسل کام کر رہا ہے تاکہ غیرملکی انحصار کم ہو اور اپنی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کیا جا سکے۔
اب بات کر لیتے ہیں کہ پاکستان کو 10 سی جہاز ملنے کے بعد کیا ایف 16 کی ضرورت رہی یا نہیں رہی اس کے لیے دونوں جہازوں اور خطے میں موجود دوسرے جہازوں کا جائزہ لینا ہوگا ، ایف-16 اور جے-10 سی دونوں ہی جدید جنگی طیارے ہیں، لیکن ان کی ٹیکنالوجی، صلاحیت، اور مقاصد مختلف ہیں۔ ایف-16 امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کا بنایا ہوا چوتھی نسل کا لڑاکا طیارہ ہے، جو دنیا بھر میں اپنی ثابت شدہ کارکردگی اور وسیع استعمال کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کے جدید ورژن، ایف-16 وی (Viper)، میں AESA ریڈار اور جدید الیکٹرانک وارفیئر سسٹمز شامل ہیں، جو اسے ایئر ٹو ایئر اور ایئر ٹو گراؤنڈ مشنز کے لیے بہترین بناتے ہیں۔ دوسری طرف، جے-10 سی چین کا بنایا ہوا ایک جدید ملٹی رول لڑاکا طیارہ ہے، جو کم قیمت میں جدید ترین ٹیکنالوجی فراہم کرتا ہے۔ یہ ریڈار، جدید الیکٹرانک وارفیئر، اور نیٹ ورک سینٹرک جنگی صلاحیتوں کے ساتھ خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے موزوں ہے۔ ایف-16 اپنی طویل آپریشنل تاریخ، عالمی اثر و رسوخ، اور آزمودہ جنگی کارکردگی کی وجہ سے برتری رکھتا ہے، جبکہ جے-10 سی اپنی جدید ٹیکنالوجی اور معاشی فائدے کے لحاظ سے نمایاں ہے۔ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے دونوں طیارے ایک دوسرے کے قریب ہیں، لیکن جنگی تجربے میں ایف-16 کو فوقیت حاصل ہے۔لیکن چین اب اس میں مزید تکنیکی تبدیلیاں کر رہا ہے جس کے بعد یہ جہاز سٹیلتھ خصوصیات کا حامل بن جائے گا جسے پھر رافیل جیسے مہنگے فرانسیسی جہاز جس کا استعمال بھارت کر رہا کی برابری حاصل ہوجائے گی لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اس میں پرزوں کی تیاری اور بعد ازاں اسمبلنگ بھی پاکستان میں ہوگی جس سے پاکستان فضائی برتری میں کسی کا محتاج نہیں رہے گا ۔
اب یہاں میں ایک اور تقابل پیش کرنا چاہتا ہوں جو دنیا کے جدید طیاروں اور 10 سی کا تقابل ہے ،جدید جنگی طیاروں کی دنیا میں روس کا ایس یو-35، چین کا جے-10 سی، اور امریکہ کا ایف-18 نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ تینوں طیارے اپنی اپنی ٹیکنالوجی، صلاحیتوں، اور جنگی مقاصد کے لحاظ سے منفرد ہیں۔ ان کا تقابل کرتے ہوئے ہم ان کی خصوصیات، طاقت اور کمزوریوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
روس کا ایس یو-35، سوخوئی کمپنی کا تیار کردہ، ایک چوتھی نسل کا جدید لڑاکا طیارہ ہے جسے "4.5 جنریشن" طیارے کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ یہ طیارہ شاندار ایروناٹیکل ڈیزائن، طویل رینج، اور بہترین جنگی کارکردگی کی بدولت مشہور ہے۔ ایس یو-35 کی زیادہ سے زیادہ رفتار 2,400 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے، اور اس کا جنگی رینج 3,600 کلومیٹر تک ہے۔ یہ جدید ترین میزائل، بم، اور گنز سے لیس ہے، جن میں ایئر ٹو ایئر اور ایئر ٹو گراؤنڈ ہتھیار شامل ہیں۔ اس میں نصب Irbis-E ریڈار 400 کلومیٹر تک کے اہداف کو ٹریک کر سکتا ہے۔ تھرسٹ ویکٹرنگ ٹیکنالوجی کی بدولت یہ بہترین منورویبلٹی فراہم کرتا ہے، جو قریبی فضائی جنگ میں اسے برتری دیتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک طاقتور طیارہ ہے، لیکن اس کی بڑی جسامت اور زیادہ قیمت بعض اوقات محدود بجٹ والے ممالک کے لیے رکاوٹ بنتی ہے۔چین کا جے-10 سی ایک جدید ملٹی رول لڑاکا طیارہ ہے، جو کم قیمت میں جدید ترین ٹیکنالوجی فراہم کرتا ہے۔ یہ خاص طور پر ایسے ممالک کے لیے موزوں ہے جو محدود بجٹ کے باوجود جدید طیارے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جے-10 سی کی رفتار 2,200 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ سکتی ہے، اور اس کا جنگی رینج 1,850 کلومیٹر تک ہے۔ یہ PL-15 اور PL-10 جیسے جدید میزائلوں سے لیس ہے۔ اس میں AESA ریڈار نصب ہے، جو جدید جنگی صلاحیتوں میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اور الیکٹرانک وارفیئر سسٹم بھی شامل ہے۔ جے-10 سی اپنی جدید ٹیکنالوجی اور کم لاگت کی وجہ سے مقبول ہے۔
ایف-18 سپر ہورنیٹ، امریکہ کا بنایا ہوا، ایک ملٹی رول جنگی طیارہ ہے جو بحری جنگی مشنز کے لیے خاص طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ طیارہ امریکی بحری بیڑے کا اہم حصہ ہے اور جدید جنگی ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ ایف-18 سپر ہورنیٹ کی زیادہ سے زیادہ رفتار 1,915 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے، اور اس کا جنگی رینج 2,300 کلومیٹر تک ہے۔ یہ اور یہ مہلک مزائیل سسٹم سے لیس ہے ریڈار نصب ہے، جو اہداف کو جلدی اور مؤثر طریقے سے نشانہ بنانے میں مدد دیتا ہے ، لیکن اس کی زیادہ قیمت اور محدود رینج اسے دیگر طیاروں کے مقابلے میں بعض حالات میں کم مؤثر بناتی ہے۔
ایس یو-35، جے-10 سی، اور ایف-18 تینوں طیارے اپنی جگہ منفرد ہیں۔ ایس یو-35 طویل رینج اور منورویبلٹی کے لحاظ سے سبقت رکھتا ہے، جے-10 سی اپنی کم قیمت اور جدید ٹیکنالوجی کی بدولت نمایاں ہے، جبکہ ایف-18 سپر ہورنیٹ بحری جنگی مشنز کے لیے بہترین ہے۔
https://www.city42.tv/29-Dec-2024/150393
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر