(24نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نےرانا شمیم بیان حلفی کیس میں 7 جنوری کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں سابق جج جی بی رانا شمیم کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی .دوران سماعت عدالت نے رانا شمیم پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ میر شکیل، انصار عباسی اور عامر غوری پر بھی فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے،اسلام آباد ہائیکورٹ نے بیان حلفی توہین عدالت کیس کے فریقین کو طلب کرتے ہوئے فرد جرم عائد کرنے کیلئے 7 جنوری کی تاریخ مقرر کر دی ۔
قبل ازیں رانا شمیم توہین عدالت کیس میں رانا شمیم کا اوریجنل بیان حلفی اسلام آباد ہائی کورٹ کو موصول ہوگیا تھا۔تاہم ذرائع کا بتانا تھا کہ رجسٹرار ہائی کورٹ نے سربمہر لفافے کو ایک اور سیل لگا دی تھی۔ جس کو آج سماعت کے دوران عدالت میں پیش کیا گیا۔ لفافے پر confidential کے علاوہ صرف چیف جسٹس کھول سکتے ہیں کے الفاظ درج تھے۔تاہم آج دوران سماعت عدالت میں رانا شمیم کا حلف نامہ کھول دیا گیا ۔
دوران سماعت رانا شمیم نے تسلیم کیا کہ یہ انکا ہی بیان حلفی ہے ۔
اٹارنی جنرل نے حلفہ نامے کی کاپی دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اس بیان حلفی کو فونٹ کیلبری ہے ،وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے کہا کہ اب پروسیڈنگ آگے بڑھنی چاہیں جن کے نام ہیں وہ جوابی بیان حلفی جمع کرائیں۔اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا اگر پاکستان بار کونسل یہ کہہ رہی ہے جو بیان حلفی لکھا ہے وہ درست ہے تو آپ اس عدالت کے ہر جج پر شک کر رہے ہیں ،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس بیان حلفی نے اس عدالت کے تمام ججز کو مشکوک بنا دیا ہے۔
دوران سماعت رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نے دلائل دیتےہوئے کہا کہ رانا شمیم کا کہنا ہے کہ یہ بیان حلفی انکا پرائیویٹ دستاویز ہے، جو انہوں نے اپنی مرحومہ اہلیہ کیلئے ریکارڈ کرایا ،انہوں نے اپنا بیان حلفی پریس کو لیک نہیں کیا، کسی کو دیا نہیں، رانا شمیم نے انصار عباسی کو بھی کہا کہ یہ میرا پرائیویٹ دستاویز تھا آپکو کیسے ملا،چیف جسٹس نے کہا کہ اب تک رانا شمیم کو بھی معلوم ہو چکا ہو گا کہ یہ کتنا حساس معاملہ ہے، تاہم لطیف آفریدی نے کہا کہ یہ اتنا حساس معاملہ نہیں ہے،اس عدالت میں فردوس عاشق اعوان اور سپریم کورٹ میں عمران خان توہین عدالت کیسز بنے تھے، دونوں کیسز میں کیا ہوا،یہ کیسز آتے ہیں اور عدالت کو ان میں رحمدلی دکھانی ہوتی ہے، ،چیف جسٹس کے استفسار پر لطیف آفریدی نے کہا کہ انہیں کیا معلوم اس بیان حلفی کا بینفشری کون ہے،میرے کلائنٹ کو یہ نہیں معلوم تھا یہ بیان حلفی اتنا حساس ہو جائیگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کل کلبھوشن بیان حلفی دے دے کہ میرا کیس نہ چلے، تو کیا بیان حلفی پر ہم کلبھوش کا کیس روک دینگے، یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اس لئے عدالت نے زیادہ عدالتی معاونین بیٹھائے ہیں۔