( ملک اشرف ) لاہور ہائیکورٹ نے انٹرنیٹ سے توہین آمیز مواد ہٹانے کیلئے درخواست پر ڈی جی ایف آئی اے سمیت دیگر حکام کو دوبارہ طلب کرلیا، چیف جسٹس ہائیکورٹ محمد قاسم خان نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں جتنے قوانین ہیں کیا انکو لاگو کرنا حکومت کا کام نہیں، حکومت کھل کہ بیان دے دے کہ کچھ نہیں کرنا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے توہین آمیز مواد انٹرنیٹ سے ہٹانے کی درخواست پر سماعت کی۔ ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء، وفاقی سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر، چئیرمین پی ٹی اے عامر باجوہ سمیت دیگر افسران لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد علی باجوہ نے عدالت کو بتایا کہ مواد ہٹانے کے معاملے پر ایف آئی اے نے ہی کارروائی کرنی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اگر کوئی بیرون ملک سے بیٹھ کے توہین آمیز مواد پاکستان میں پھیلائے تو ایف آئی اے کیا کرے گا؟ یہ کیسی مدینہ کہ ریاست ہے کہ بنیادی ذمہ داری ہی پوری نہیں کر رہے، ایف آئی اے میں ایسا ونگ ضرور ہونا چاہیے جو توہین آمیز مواد چیک کرے اور اسے ہٹائے۔
چیف جسٹس جسٹس نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت تمام توہین آمیز مواد کو ہٹا دے یا سسٹم بند کر دے، ایف آئی اے نے بھی رپورٹ جمع کرا کر جان ہی چھڑائی ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے معاونت مانگ لی کہ آیا گوگل کیخلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے یا نہیں؟
جسٹس محمد قاسم خان نے حکم دیا کہ ڈی جی ایف آئی اے سمیت تمام افسران آئندہ سماعت پر ملتان بنچ میں جواب سمیت پیش ہوں،عدالت نے سماعت 30 دسمبر تک ملتوی کردی۔