سٹی42: نوجوان حاملہ خاتون ثانیہ زہرا کی موت قتل تھی یا خودکشی، حقائق سینیٹ کی انسانی حقوق پر فنکشنل کمیٹی کی بریفنگ میں سامنے آ گئے۔
ملتان کی نوجوان خاتون ثانیہ زہرا کی اپنے شوہر کے گھر مین پنکھے سے لٹکی ہوئی لاش سامنے آنے پر پاکستان کے سوشل میڈیا میں تحریک چل گئی تھی اور عوام نے اس موت کی تحقیقات کروانے پر زور دیا تھا۔
ثانیہ زہرا کا کیس سوشل میڈیا میں وائرل ہونے کے بعد ملتان میں ثانیہ زہرا کےمبینہ قاتل کی گرفتاری کے الئے سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے تھے۔ عامی دباؤ پر پولیس نے ثانیہ زہرا کے شوہر کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس موت کی خبریں بین الاقوامی میڈیا مین بھی شائع ہوئیں۔
عوامی دباؤ پر یہ معاملہ سینیٹ کی انسانی حقوق پر فنکشنل کمیٹی نے ٹیک اپ کیا اور اس کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کروائی گئیں۔
ملتان پولیس نے سینیٹ فنکشنل کمیٹی انسانی حقوق میں شوہر کے ہاتھوں ملتان میں مبینہ طورپر قتل ہونے والی ثانیہ زہرا کیس پر بریفنگ دی۔
سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی میں ثانیہ زہرا کیس کی تصاویر، پوسٹ مارٹم اور فارنزک رپورٹ پیش کی گئی۔ اے ایس پی ملتان پولیس نے بتایاکہ ثانیہ زہرا کے قتل پر سوشل میڈیا پر شور ہوا، ثانیہ زہرا کے والد نے قتل کے تیسرے دن مقدمہ درج کرایا، ثانیہ زہرا کیس میں والد کا الزام تھا ان کی بیٹی حاملہ تھی اورشوہر نے قتل کیا۔
اے ایس پی ملتان نے بتایاکہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اثر و رسوخ رکھتےہیں اورپوسٹ مارٹم کرانے نہیں دے رہے تھے۔ بعد مین پوسٹ مارٹم کروایا گیا۔ تمام شواہد، پوسٹ مارٹم رپورٹ اور فارنزک شواہد کے مطابق شک قتل کے بجائے خودکشی کی طرف جا رہا ہے۔
اس موقع پر وزیر برائے انسانی حقوق اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھاکہ موجودہ کیس ابھی زیر التوا ہے اور شواہد کا عمل ہوچکا، ہمارے ملک میں پوسٹ مارٹم کرانے نہیں دیا جاتا، شکر ہے کہ یہاں شواہد اکٹھے ہوئے ہیں۔
سینیٹر ہمایوں مہمند نے کمیٹی کے اجلاس مین کہا کہ پراسیکیوشن یا حکومت کا بیان یہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس پر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہمیں اندازہ ہے کہ ہمارے سماجی اور معاشرتی حالات کیا ہیں، ہم پاکستان میں رہتے ہیں ناروے میں نہیں، ہم باقی ہرچیز میں مغرب کی طرح ہوناچاہتےہیں مگرآبادی پر کنٹرول نہیں کرناچاہتے، اس کیس پر مزید بات کرنا اس پر اثرانداز کرنے کے مترادف ہوگا۔