سٹی42: پاکستان کی پارلیمنٹ میں سابق جنرل فیض حمید کے پارلیمنت کو گمراہ کرنے اور بلوچستان کے بحران کو گہرا کرنے کے حوالے سے کردار کے متعلق ایک سنجیدہ سوال اٹھا دیا گیا۔
اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا سینیٹ کے اجلاس میں سابق نگران وزیراعظم اور سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ جن صاحب کا کورٹ مارشل ہورہا ہے ان کو اس ہاؤس کے جانب سے سوال جانا چاہیے کہ مذاکرات کے حوالے سے اس ہاؤس کوکیسے مس لیڈ کیا گیا۔
سینیٹ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ 25 اور 26 اگست کی رات کو بلوچستان میں جو اندوہناک واقعات ہوئے اس سے پوری قوم غم کی کیفیت میں ہے، ان واقعات کے بعد جو پرانی گفتگو اور بیانیے تھے اسے پارلیمنٹ، سوشل میڈیا اور ریاستی اداروں میں دوبارہ چھیڑا گیا، اب مناسب وقت ہے کہ اس بحث کو ایک مثبت انداز میں آگے لے کر بڑھیں۔
سابق وزیر اعظم انوار الھق کاکڑ نے کہا کہ یہاں دو سوچیں رہی ہیں ایک یہ کہ دہشتگردوں سے مذاکرات ہوں اور دوسری یہ کہ طاقت کا استعمال کیا جائے مگر اس بات کا تعین کرنا ہوگا کہ ہم ان دونوں حکمت عملیوں سے حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں، ایک کمیٹی بننی چاہیے جو ان چیزوں کو دیکھے۔
پنجابی بلوچ کی کوئی لڑائی نہیں، لڑائی ریاست کے مخالفوں اور ریاست کی ہے
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دہشتگرد چاہتے ہیں آپ تھک ہار کر یہ لڑائی ترک کردیں. پنجاب کے رہائشیوں کو نشانہ بنانے کے پیچھے کوئی پنجابی اور بلوچ کی لڑائی نہیں ہے بلکہ دہشتگردوں کا مقصد پاکستان کو توڑنا اورنئی ریاست بنانا ہے، اگر کوئی بلوچ، سندھی یا پشتون بھی ریاست کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو ان پر یہ دہشتگرد حملہ آور ہوتے ہیں۔
محافظوں کو محافظ تسلیم کرنا ہو گا
سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے مزید کہا کہ کسی بھی ملک میں تشدد سے نمٹنے کا اختیار ریاست کے پاس ہے مگر بدقسمتی سے جن اداروں کو یہ ذمہ داری آئین میں ملی ہے ان کے درمیان ایک خلیج پیدا کی جارہی ہے یا پیدا ہوچکی ہے، اگر ان لوگوں کو ہم بطور ہیرو نہیں بلکہ ولن کے طور پر پیش کریں گے تو یہ جنگ آج سے ہی آپ ہاری ہوئی سمجھیں۔ ہمیں ان کو اپنے گھر، صوبے اور ملک کا محافظ تسلیم کرنا ہوگا اور ہر طرح سے ان کی مدد کرنا ہوگی کیونہ یہ کسی ادارے کی نہیں بلکہ قومی جنگ ہے۔
بلوچستان میں پاکستان کے مخالف صرف ایک فیصد
انہوں نے کہا کہ ہمیں بلوچستان میں موجود دہشتگرد تنظیموں کی وکالت اور وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں، وہ یہ خود کرسکتے ہیں، ان کی پوزیشن الیکشن ٹھیک نہ ہونے، سیاسی حقوق نہ ملنے سے متعلق نہیں بلکہ وہ کہتے ہیں "آپ ہماری زمین پر قابض ہیں اور ہماری الگ شناخت ہے." مگر یہ لوگ صرف ایک فیصد ہیں اس لیے یہ الیکشن کے بجائے دہشتگردی کی طرف جاتے ہیں۔
پارلیمنٹ کو مس گائیڈ کیا گیا
ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات ہمیشہ لڑائی کے بعد ہوتے ہیں پہلے نہیں، یہی مشرقی پاکستان میں ہمارے ساتھ اور افغانستان میں امریکہ کے ساتھ ہوا۔ انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ جن صاحب کا کورٹ مارشل ہورہا ہے ان کو اس ہاؤس کے جانب سے سوال جانا چاہیے کہ مذاکرات کے حوالے سے اس ہاؤس کوکیسے مس لیڈ کیا گیا۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ اپوزیشن اور حکومت دونوں کو مل کر ان چیزوں کو ٹھیک کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا اگر نہیں کریں گے تو پھر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے پھر داستان نہ ہوگی داستانوں میں، اللہ کرے اس سے پہلے ہم ایک سنجیدہ بات چیت شروع کریں۔