ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ڈینگی ہماری معلومات سے زیادہ سنگین مرض نکلا،نئی تحقیق سے ہولناک انکشافات

Dengue new research, City42, complexities,
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42:  نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ معمولی مچھر کے کاٹنے سے ہونے والی وبائی مرض ڈینگی صرف اذیت ناک ہی نہیں، یہ اس سے کہیں زیادہ تباہ کن اثرات رکھتا ہے جتنا طبی ماہرین اب تک سمجھتے تھے۔صحتیابی کے بعد بھی طویل المعیاد بنیادوں تک طبی پیچیدگیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔

سنگاپور میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ڈینگی کے  مرض کے جان لیوا ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے صحت یاب ہو جانے کے بعد بھی طویل عرصہ تک نہایت خطرناک اثرات ہوتے ہیں۔ 

نان یانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی کی تحقیق میں یہ سامنے آیا کہ ڈینگی کا شکار ہونے والے افراد کو صحت یابی کے بعد بھی ایک سال اور بعض صورتوں مین اس سے زیادہ عرصے تک سنگین نوعیت کی پیچیدگیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق کے مطابق ڈینگی میں مبتلا ہونے واوں میں صحت یابی کے بعد دل کی پرفارمنس میں پیچیدگیوں  کا خطرہ خطرناک سطح تک بڑھ جاتا ہے۔ ڈینگی سے بچ جانے کے بعد بھی ان مریضوں میں دل کی دھڑکن کی رفتار بڑھ جانے، امراض قلب اور بلڈ کلاٹس کا خطرہ کووڈ 19 کے مریضوں کے مقابلے میں 55 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

اس تحقیق میں سنگاپور میں جولائی 2021 سے اکتوبر 2022 کے دوران ڈینگی میں مبتلا رہنے والے 11 ہزار سے زیادہ  مریضوں کے ڈیٹا کا موازنہ کووڈ  19 کے 12 لاکھ سے زائد مریضوں کے ڈیٹا سے کیا گیا۔

تحقیق میں دیکھا گیا کہ دونوں بیماریوں کا سامنا کرنے والے افراد میں طویل المعیاد بنیادوں پر کن طبی پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ ڈینگی دنیا بھر میں مچھروں سے پھیلنے والا عام مریض ہے اور اس کی طویل المعیاد پیچیدگیوں کے باعث متاثرہ افراد  اور ان کے علاج کے ذمہ دار  ملک پر دباؤ بڑھتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کووڈ 19 اور ڈینگی دونوں کے شکار افراد میں طویل المعیاد طبی مسائل کا خطرہ بڑھتا ہے، مگر ڈینگی کے مریضوں میں یہ خطرہ زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ 
 ڈینگی کے مریضوں میں کووڈ کے شکار افراد کے مقابلے میں طویل المعیاد بنیادوں میں یادداشت یا دماغی امراض کا خطرہ 213 فیصد جبکہ چلنے پھرنے کے مسائل کا خطرہ 198 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

محققین نے تسلیم کیا کہ تحقیق کسی حد تک محدود ہے کیونکہ اس میں صرف 18 سال یا اس سے زائد عمر کے بالغ افراد کو شامل کیا گیا تھا، تو نتائج کا اطلاق بچوں پر نہیں کیا جاسکتا۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل آف ٹریول میڈیسن میں شائع ہوئے۔