ویب ڈیسک: کابل بم دھماکوں کے بعد افغانستان کے حوالے سے عالمی منظر نامے پرتشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
خود کو افغان صدر ہونے کا دعویٰ کرنے والے امراللہ صالح کہتے ہیں کہ آئی ایس خراسان کا تعلق طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے ہے۔سی این این نے کہا کہ داعش کایہ دھڑا، افغانستان،پاکستان اور بھارت میں سرگرم ہے۔ امریکی وزیرخارجہ اینٹنی بلنکن نے ان خدشات کا ذکر کیا تھا کہ داعش کے ایک دھڑے(خراسان) کی جانب سے ممکنہ کارروائی کا امکان ہے۔طالبان نے کہاکہ دھماکے وہاں ہوئے جہاں امریکی افواج سیکورٹی دے رہے تھے،طالبان کے کنٹرول والے علاقوں میں کوئی مسئلہ نہیں۔
کئی مغربی ممالک نے بھی کابل ہوائی اڈے پر دہشتگردی کاخدشہ ظاہرکیا تھا،ان حملوں کے بعدکئی ممالک 31اگست کی انخلا کی حتمی تاریخ کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں،امریکی صدر اسی تاریخ تک انخلا مکمل کرنا چاہتے ہیں،طالبان نے بھی کہا کہ وہ اس تاریخ میں اضافے کی اجازت نہیں دینگے۔
امریکی سینٹرل کمانڈکے سربراہ جنرل کینتھ فرینک نے خبر دار کیاہے، کہ داعش کے نئے خطرات ممکنہ راکٹ یا گاڑی سے خودکش حملہ کیا جاسکتا ہے۔
آئندہ چار دن امریکی فوجیوں کیلئے پوری جنگ کے انتہائی کشیدہ اور خطرناک ہونگے۔ان حملوں کے بعد لوگوں کوافغانستان سے نکالنے کے عمل مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ حملے سے قبل جرمنی،نیدر لینڈ اور کینیڈا نے اعلان کیا تھا کہ وہ اب کوئی پرواز نہیں چلاسکتے۔ ترکی نے بھی ائرپورٹ پر سیکورٹی دینے والے اپنے اہلکاروں کو واپس بلانے کا اعلان کیا۔
اٹلی،نیوزی لینڈ نے بھی انخلا کے مشن بند کردیئے۔ پینٹاگون نے کہا ہے کہ ابھی اور بھی حملے متوقع ہیں،وہ اپنا مشن جاری رکھیں گے۔ اس وقت ائیرپورٹ پر 54سوافرادانخلاکے منتظر ہیں۔ طالبان نے افغانستان پرکنٹرول کے بعد داعش سے دوریاں اختیار کرلی ہیں اور کابل حملوں کی مزمت کی۔
ری پبلیکن اور ڈیموکریٹس دونوں کو تبدیلی کی ضرورت ہے۔پانچ صدر کی ناکامیوں کی افغانستان میں امریکی مداخلت کی کہانی سنانا مشکل نہیں،بل کلنٹن نے ایسی صورت حال چھوڑی جس سے نمٹنے کیلئے اس نے بہت کم کام کیا۔جارج بش نے مداخلت کی پھر دلچسپی کھودی۔ براک اوباما نے اخراجات اٹھائے لیکن جیسی بری صورت حال ملی ویسی ہی چھوڑ دی۔ٹرمپ نے کوشش کی لیکن اس نے بھی وہی حالات چھوڑے جو قابل عمل کم تھے۔بائیڈن نے امریکا کو نکالنے کاعزم کیا لیکن محفوظ طریقہ تلاش کرنے میں ناکام رہا۔