گزشتہ روز لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹی ٹوئنٹی سیریز کا آخری میچ دیکھنے کا اتفاق ہوا, آخری اوور میں محمد عامر کی شاطرانہ بالنگ کے باعث پاکستان کو فتح حاصل ہوئی, اس کے ساتھ ہی سیریز دو دو سے برابر ہوگئی۔ کچھ لوگ اس جیت پر بھی تنقید کر رہے تھے کہ نیوزی لینڈ کی سی ٹیم سے جیتنا کون سا بڑی بات ہے, کبھی کبھی جونیئرز بھی سینئرز کو تگنی کا ناچ نچا دیتے ہیں، تنقید برائے تنقید ہمیشہ بے نتیجہ رہتی ہے جبکہ تنقید برائے اصلاح سے کم از کم لوگوں کے ذہنوں پر اثر ضرور پڑتا ہے۔
کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں تو کئی میچز دیکھے مگر لاہور شفٹ ہونے کے بعد قذافی اسٹیڈیم میں بیٹھ کر پہلی بار میچ دیکھا تو کافی چیزیں سمجھ آئیں کہ قذافی اسٹیڈیم ہمیشہ ہاؤس فُل کیوں رہتا ہے اور اب نیشنل اسٹیڈیم میں لوگ نہیں جاتے,شاید اسی وجہ سے بھی نیوزی لینڈ اور پاکستان کی سیریز کا ایک میچ بھی نیشنل اسٹیڈیم میں نہیں رکھا گیا, نیشنل اسٹیڈیم اور قذافی اسٹیڈیم میں سب سے بڑا فرق تو یہ ہے کہ قذافی اسٹیڈیم میں آپ باآسانی پہنچ سکتے ہیں, جبکہ نیشنل اسٹیڈیم تک پہنچنا ایک امتحان سے کم نہیں ہے, قذافی کا ایک گیٹ فیروز پور روڈ پر جبکہ دوسرا لبرٹی چوک کے قریب ہے, اور دونوں راستوں پر معیاری پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب ہے۔
لبرٹی سے اسٹیڈیم تقریباً تین سو میٹر ہوگا اور کسی بھی انکلوژر تک پہنچنے کیلئے چار پانچ سو میٹر سے زائد پیدل نہیں چلنا پڑتا, جبکہ کراچی جیسے مصروف ترین شہر میں اسٹیڈیم کے گرد سڑکیں بند کردی جاتی ہیں جس سے بدترین ٹریفک جام ہو جاتا ہے,ساتھ ہی پارکنگ بھی کافی فاصلے پر ہوتی ہے اور کراچی والوں کو فٹ پاتھ نہ ہونے اور اسٹریٹ کرائمز کی وجہ سے پیدل چلنے کی عادت نہیں ہے، اس لیے بھی شہری اسٹیڈیم جانے سے اجتناب کرتے ہیں۔
کسی بھی طرح آپ نیشنل اسٹیڈیم میں پہنچ بھی گئے تو آپ سمجھیں قید ہو گئے ہیں جبکہ قذافی اسٹیڈیم کے اندر آپ آزاد ہیں، شہری سیر و تفریح اور کھانے پینے کیلئے نکلتے ہیں قید ہونے کیلئے نہیں، قذافی کے اندر آپ کو انکلوژرز کے ٹاپ پر کھانے پینے کی اشیا مناسب قیمتوں پر مل جاتی ہیں اور لاہوریے خوش خوراک ہونے کی وجہ سے اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ کر کھاتے پیتے میچ انجوائے کرتے ہیں جبکہ کراچی میں میچ کے دوران انکلوژرز کے گیٹ بند کردیئے جاتے ہیں اور کھانے پینے کے اسٹالز انکلوژرز کے باہر ہونے کے باعث میچ کے دوران عوام کی اُن تک رسائی نہیں ہوتی، میچ میں دورانِ وقفہ لوگوں کو انکلوژرز سے باہر نکل کر کھانے پینے کی اشیاء لینی پڑتی ہیں اور پھر آ کر بقیہ میچ دیکھنا پڑتا ہے۔
قذافی اسٹیڈیم میں کی لائٹنگ اچھی ہونے کی وجہ سے گیند بھی واضح طور پر دکھائی دے رہی ہوتی ہے جبکہ نیشنل اسٹڈیم میں گیند تو دور کی بات ہے کھلاڑیوں کا پتہ نہیں چلتا کہ کون آپ کے انکلوژر کے قریب فیلڈنگ کر رہا ہے اور اسکرین چھوٹی ہونے کی وجہ سے ری پلے بھی ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتا اور اسٹیڈیم میں لگے ہوئے پلرز بھی آپ کو میچ نہیں دیکھنے دیتے۔ چھٹی کا روز ہوگا تو کراچی کے ہوٹلز پر آپ کو رش ملے گا مگر اسٹیڈیم کے گرد لوگ بھٹکتے نہیں کہ کیا فائدہ اندر جا کر قید ہی ہونا ہے، تو یہ تھیں وہ چند باتیں جس سے لاہور جو کہ آبادی میں کراچی کی نسبت کم ہے مگر اس کا قذافی اسٹیڈیم شہر قائد کے نیشنل اسٹیڈیم سے سبقت لے جاتا ہے۔
اس تحریر کا ہرگز مقصد کراچی بمقابلہ لاہور نہیں ہے،جیسا کہ میں اوپر کہا تھا کہ تنقید برائے اصلاح مفید رہتی ہے، بات قسمت کی بھی ہے کہ کراچی کو مخلص حکمراں نہیں ملے چاہے وہ شہری حکومت کے ہوں یا صوبائی،مگر لاہور نے بزدار کے سوار ہر دور میں ترقی ہی کی ہے, یہاں تک کہ نگراں دور میں وزیراعلیٰ محسن نقوی نے وہ کام کیے جو کراچی کی منتخب حکومتیں بھی نہیں کرسکتیں, دعا ہے کہ کراچی بھی اُسی تیزی سے ترقی کرے جس طرح لاہور آگے بڑھ رہا ہے اور کراچی والوں کو سکھ کا سانس اور اچھی سیر و تفریح ملے۔