سٹی42: اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے بدھ اور جمعرات کے دوران فرانس، امریکہ اور انکے اتحادی ممالک کی حزب اللہ کے ساتھ 21 روزہ ٹروس کی تجویز کو مان لیا تھا لیکن کچھ ہی گھنٹے بعد اپنی حکومت کے اتحادیوں اور اسرائیل کے اندر عمومی دباؤ کی وجہ سے وہ جنگ بندی کی تجویز پر عملدرآمد کرنے سے انکاری ہو گئے۔
امریکہ اور فرانس دونوں نے جمعرات کو بیانات میں واضح کیا کہ نیتن یاہو نے نجی طور پر جنگ بندی کے منصوبے پر رضامندی ظاہر کی تھی، تب ہی اسرائیل میں داخلی ردعمل کے دوران اسے ترک کردیا تھا۔ انہوں نے حیرت اور مایوسی کا اشارہ دیا کہ اسرائیل نے اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔
وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نےاس منصوبے پر نجی طور پر رضامندی ظاہر کی دی تو اس کے بعد ان پر اپنے اتحاد کے اندر دباؤ ڈالا گیا اور وہ اپنے اعلان سے دستبردار ہو گئے۔ اپنی نئی پوزیشن واضح کرنے کے لئے نیتن یاہو نے ایکس پر ایک ٹویٹ پوسٹ کی تھی جس میں کہا تھا کہ جنگ بندی کی خبریں صحیح نہیں۔ بعد میں جمعرات کو دیر گئے انہوں نے کہاا کہ اسرائیل حزب اللہ کے ساتھ عارضی جنگ بندی کے لیے امریکی زیرقیادت اقدام کے مقاصد سے اتفاق کرتا ہے۔
لیکن جمعرات کی شب دیر گئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے نیویارک جاتے ہوئے، نیتن یاہو نے اس بات کی تردید کی تھی کہ انھوں نے جنگ بندی کی تجویز کا مثبت جواب دیا تھا یا اس کی منظوری دی تھی، حالانکہ ایک سینئر مغربی سفارت کار نے بتایا کہ وزیر اعظم اور ان کے معاونین جنگ بندی کی منصوبہ بندی میں قریبی طور پر ملوث تھے۔اسرائیلی وزیر اعظم نے نیویارک میں لینڈنگ پر کہا تھا ، "ہم پوری طاقت سے حزب اللہ پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور ہم اس وقت تک نہیں رکیں گے جب تک کہ ہم اپنے تمام اہداف حاصل نہیں کر لیتے، ان میں سے ایک ہدف شمال کے باشندوں کی بحفاظت ان کے گھروں کو واپسی ہے،"
نیتن یاہو کی نیویارک میں اس گفتگو کے دنیا میں وائرل ہونے کے بعد امریکہ اور اسرائیل کا اس پر بیان آیا جس میں یاہو کے جنگ بندی کی تجویز سے پھرنے پر مایوسی کا اظہار کیا گیا۔ اس کے بعد اسرائیل میں وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) نے امریکہ اور فرانس دونوں کے بیانات کے بعد ایک "وضاحت" جاری کی جس میں اسرائیل نے اشارہ دیا تھا کہ وہ بدھ کو واشنگٹن اور پیرس کی طرف سے تجویز کردہ 21 روزہ جنگ بندی کی حمایت کرے گا۔ پرائم منسٹر آفس نے بتایا کہ اسرائیلی اور امریکی ٹیموں نے جمعرات کو دیر گئے ملاقات کی تاکہ امریکی اقدام پر تبادلہ خیال کیا جا سکے اور "ہم لوگوں کو ان کے گھروں کو بحفاظت واپس لوٹنے کے مشترکہ مقصد کو کیسے آگے بڑھا سکتے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات چیت آنے والے دنوں میں جاری رہے گی۔
اس کے ساتھ ہی اسرائیل کے سٹریٹیجک امور کے وزیر رون ڈرمر نے امریکہ کے سینئیر عہدیداروں سے ہنگامی ملاقاتیں کیں جن میں انہوں نے جنگ بندی کی تجویز پر اسرائیل کے نکتہ نظر کی وضاحت کی۔ سٹریٹیجک امور کے وزیر رون ڈرمر، نیتن یاہو کے اعلیٰ مشیروں میں سے ایک ہیں، انہوں نے جمعرات کو امریکہ کے خصوصی ایلچی آموس ہوچسٹین اور امریکی قومی سلامتی کونسل کے مشرق وسطیٰ کے زار بریٹ میک گرک سے ملاقات کے بعد امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات کے متعلق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ بلنکن نے ڈرمر کو بتایا، "ایک سفارتی تصفیہ سرحد کے دونوں طرف کے شہریوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دے گا جبکہ تنازعہ میں مزید اضافہ اس مقصد کو مزید مشکل بنا دے گا۔"
21 روزہ جنگ بندی کی یہ تجویز تقریباً ایک ہفتے کے مسلسل اسرائیلی حملوں کے بعد سامنے آئی ہے۔ ان حملوں نے لبنانی گروپ کی سینئر کمانڈ کو تباہ کر دیا ہے۔
اسرائیل حزب اللہ جنگ بندی کی تجویز کا مقصد غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے معاہدے کے لیے وقت فراہم کرنا ہے۔ اس ٹروس کے نتیجے میں حزب اللہ کو بھی شمالی اسرائیل کے بارڈر سے قدرے پیچھے دھکیلا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بھی یہی کہتی ہے کہ حزب اللہ کی فوجیں اسرائیل کی شمالی سرحد سے دور ہیں۔
نیتن یاہو کے دفتر سے مزید کہا گیا کہ "امریکہ کی قیادت میں جنگ بندی کے اقدام کے بارے میں بہت ساری غلط رپورٹنگ کی وجہ سے، چند نکات کو واضح کرنا ضروری ہے۔ اس ہفتے کے شروع میں، امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ دوسرے بین الاقوامی اور علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مل کر، لبنان میں جنگ بندی کی تجویز پیش کرنے کے اپنے ارادے کا اشتراک کیا،"
نیتن یاہو کے دفتر سے کہا گیا کہ "اسرائیل اپنی شمالی سرحد کے ساتھ لوگوں کو محفوظ طریقے سے اپنے گھروں کو واپس جانے کے قابل بنانے کے امریکہ کی زیرقیادت جنگ بندی تجویز کے مقاصد کو شئیر کرتاہے۔"