ویب ڈیسک: سپریم کورٹ کے جسٹس حسن اظہر رضوی کا پارلیمنٹ کو قانون سازی کے لامحدود اختیارات حاصل ہونے اور عدلیہ کو بلاجواز جوڈیشل سکروٹنی سے روکنے کی رائے پر مبنی فیصلہ سپریم کورٹ ویب سائیٹ سے ہٹا دیا گیا.
جسٹس حسن رضوی نے فیصلہ لین دین کے ایک مقدمہ میں تحریر کیا ہے۔
دو رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جمال مندوخیل نے آرٹیکل 199 میں انٹرا اپیل کا معاملہ چیف جسٹس کو بھجوانے کی سفارش کی تھی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کے فیصلے پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے اختلافی نوٹ لکھا اور اپنے نوٹ میں قرار دیا کہ پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی ہے۔ آئین کا کوئی آرٹیکل پارلیمنٹ کا قانون سازی سے نہیں روکتا۔ عدلیہ کو پارلیمنٹ کے قانون کی محض جوڈیشل اسکروٹنی کا اختیار ہے تاہم جسٹس حسن اظہر رضوی نے لکھا کہ اعلی عدلیہ کو قانون کی جوڈیشل اسکروٹنی کے اختیار سماعت پر تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے لکھ کہ اعلی عدلیہ کو جوڈیشل اسکروٹنی کا اختیار ایسے استعمال کرنا چاہیے جس سے عدلیہ، مقننہ اور ایگزیکٹیو میں ہم آئنگی برقرار رہے۔ جوڈیشل نظرثانی کا اختیار تحمل اور دانشمندی سے استعمال کیا جانا چاہیے۔
عزت مآب جسٹس نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی لکھا کہ ہم اعلی عدلیہ اور پارلیمنٹ میں جنگ شروع کرنے والی جوڈیشل اسکروٹنی کا اختیار استعمال نہیں کر سکتے۔ فیصلہ میں زیر نظر مقدمہ کے حوالہ سے لکھا گیا کہ ریفارمز آرڈیننس 1972 کو 1973 کے آئین میں قانونی تحفط فراہم کیا گیا،
ریفارمز آرڈینس کے تحت آرٹیکل 199 کے ہائیکورٹ کے آئینی اختیار میں اپیل کا حق دیا گیا۔
ریفارمز آرڈیننس کی قانونی حیثیت پر 50 سال گزرنے کے باوجود کبھی سوال نہیں اٹھایا گیا۔
عدالتی فیصلوں کے مطابق عدلیہ کو نہ چھیڑے گئے قانونی سوالات کے حل سے گریز کرنا چاہیے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے لکھا کہ مجھے
اپنے ساتھی جج جسٹس جمال مندوخیل کے فیصلہ سے اتفاق نہیں۔ قانونی نقطہ کی تشریح کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوانے کی ضرورت نہیں۔ معزز جج کےاس فیصلہ کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹائے جانے کے اس واقعہ سے پہلے بھی گزشتہ چند ہفتوں میں کم از کم دو اہم فیصلے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹا دیئے گئے تھے جن کے بارے مین عام تاثر یہ تھا کہ یہ چیف جسٹس کی بعض معاملات پر رائے سے متصادم رائے کا اظہار کرتے ہیں۔