حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ

27 May, 2018 | 10:38 AM

(قیصر کھوکھر) وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن (ر) زاہد سعید نے پنجاب سول سیکرٹریٹ میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے افسران میں نقد انعام اور تعریفی سرٹیفکیٹ تقسیم کئے ہیں اور ان کی صلاحیتوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ گریڈ17 سے گریڈ19 تک کے افسران کو چیف سیکرٹری پنجاب نے انعامات دیے اور گریڈ 20 ،گریڈ21 ، ڈی سی اور ڈی پی او کو وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے خود نقد انعامات اور تعریفی سرٹیفکیٹ دیئے ہیں ۔

انعامات دینے کا فیصلہ محکموں کے سیکرٹریز، چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پولیس کی سفارشات پرکیاگیا۔ جن میں پک اینڈ چوز کیا گیا ہے اور کئی اہل اور قابل افسران کو صرف اس وجہ سے انعامات نہیں مل سکے ہیں کہ وہ اپنے محکمے کے سربراہ کی گڈ بک میں نہیں تھے اور وہ افسران بھی انعام اور تعریفی سرٹیفکیٹس لے گئے جن کیلئے ماضی میں حکومت نے ناراضگی ظاہر کر رکھی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایوان وزیر اعلیٰ کے ہر افسر کو انعام دیا گیا ہے ۔اس سے قبل ایوان وزیر اعلیٰ کے افسران اور ملازمین کو سپیشل الاونس بھی تنخواہ کے علاوہ ملتا ہے۔ اس انعام دینے کی تقریب میں ایوان وزیر اعلیٰ کے افسرن کو خوب نوازا گیا ہے اور وزیر اعلیٰ کے تمام پی ایس او کو انعامات دیے گئے ہیں تاکہ جاتے جاتے وزیر اعلیٰ کو خوش کیا جا سکے۔ سول سروس کا نظام انڈیا اور پاکستان دونوں برطانوی حکومت سے وراثت میں لیا گیاہے۔ پاکستان میں 1973 میں سول سروس میں اصلاحات ہوئی ہیں۔

 انگریز سول سروس کے بارے میں بہت محتاط تھا اس دور میںگورنمنٹ ملازمین کو کسی بھی بولی یا زمین کی الاٹمنٹ میں حصہ لینے کا اختیار نہ تھا۔اگر انگریز کسی کی کارکردگی سے خوش ہوتا تھا تو اس افسر کو ایک اضافی انکریمنٹ دی جاتی تھی یا اعزازیہ دیا جاتا تھا۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے افسران کو جو نوازشات آنکھیں بند کرکے کی جا رہی ہیں ان کی مثال نہیں ملتی ہے ۔ اس ساری مشق میں یہ نہیں دیکھاگیا ہے کہ جس افسر کو انعام دیا جا رہا ہے اس کے خلاف ماضی میں کوئی کارروائی بھی ہوئی ہے یا کہ نہیں۔ ایک جانب افسران نیب میں پیشیاں بھگت رہے ہیں یا مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ حکومت پنجاب کو چاہیے تھا کہ اس موقع پر گدھے اور گھوڑے کی تمیز کرتی اور افسران کو انعامات دیتے وقت افسران کے تفصیلی کیریئر کو بھی چیک کیا جاتا اور ایک پولیس افسر ایسے بھی ہیں جنہیں آر پی او لگے ابھی ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا اور ایک سال سے بھی کم وقت میں انہیں دو بار ٹرانسفر کیا گیا ہے لیکن انہیں بھی وزیر اعلیٰ نے انعام دیا ہے۔

ایسا لگتاہے حکومت نے قومی خزانے کو حلوائی کی دکان سمجھ رکھا ہے اور حکومت جاتے جاتے اپنے آپ کو اچھا ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے اور کچھ افسران کو برا سمجھ رکھا ہے ۔ اس طرح کی اندھی نوازشات کی ابتدا محکمہ خزانہ سے کی گئیں جہاں پر بجٹ کی تیاری کے نام پر محکمہ خزانہ کے ملازمین اور افسران کو اضافی تنخواہیں ادا کی گئی ہیں حالانکہ بجٹ تیار کرنا محکمہ خزانہ کی ڈیوٹی ہے اور اس کی باقاعدہ انہیں تنخواہ دی جاتی ہے۔ انرجی کے منصوبوں پر کام کرنے والے افسران پرخصوصی انعامات کی بارش کی گئی ہے۔

 سپریم کورٹ نے پنجاب کی کمپنیوں کی ہو شر با تنخواہوں کا نوٹس لے  رکھا ہے۔ اور اس کا کیس نیب میں بھی چل رہا ہے۔ جس ملک کا بال بال قرضہ میں جکڑا ہوا ہے، اس کا پیسہ انعامات کی صورت میں لٹایا جا رہا ہے ۔ خاص طور پر انرجی منصوبوں پر انعامات اورتنخواہوں کے نام پر چند افسران کو لاکھوں روپے انعام دیا گیا ہے۔ احد خان چیمہ کو کئی بار ایوارڈ دیاگیا ہے اور وہ آج کرپشن کے کیس میں جیل میں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ انعامات دینے کی تقریب میں کارکردگی اور ان پٹ اور آﺅٹ پٹ کو سامنے رکھے بغیر انعامات دیئے گئے ہیں کہ محکمہ کے سربراہ نے سفارش کر دی ہے۔

 حالانکہ اگر دیکھا جائے تو فیلڈ میں کام کرنے والے کئی افسران منہ دیکھتے رہ گئے ہیں جن میں ڈی پی او وہاڑی عمر سعید ملک نے وہاڑی میں جرائم کی بیج کنی اور عوام دوست پولیس کی ایک نئی بنیاد رکھی ہے ۔ لیکن پنجاب پولیس نے انہیں آر پی او شیخوپورہ ذوالفقار حمید، ڈی پی او ساہیوال ڈاکٹر عاطف اکرام، کو اعلی کارکردگی کے باوجود نظر انداز بھی کیا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ حکومت نے کچھ اچھے بھی فیصلے کئے ہیں اور بہترین کارکردگی دکھانے والے افسران کو میرٹ پر بھی انعامات دیئے ہیں جن میں وزیر اعلیٰ نے شاندار کارکردگی دکھانے والے آر پی او فیصل آباد بلال صدیق کمیانہ کو بہترین آر پی او کا انعام دیا ہے اور وہ اس انعام کے صحیح طور پر حق دار بھی تھے۔

بلال صدیق کمیانہ کی جہاں پر تقرری رہی ہے وہ عوام اور پولیس دوست افسر رہے ہیں۔ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور سلطان احمد چودھری، سی سی پی او لاہور کیپٹن (ر) محمد امین وینس، ڈی پی او میانوالی صادق علی ڈوگر، ڈی پی او حافظ آباد سردار غیاث گل ، ڈی پی او گجرات جہانزیب نذیر خان اور ڈی پی او جھنگ لیاقت علی ملک کو اعلیٰ کارکردگی پر انعام دیا جانا ایک خوش آئند قدم ہے۔ لیکن ڈی ایم جی افسر اسد اسلام ماہنی جن پر ماتحت لڑکیوں کو ہراساں کرنے کے الزام کی انکوائری زیر التوا رہی ہے انہیں بھی انعام دیا گیا ہے۔ سیکرٹری ریگولیشن ڈاکٹر صالح طاہر سیکرٹری لائیو سٹاک نسیم صادق ، سیکرٹری سروسز فرحان عزیز خواجہ، سیکرٹری پراسیکیوشن سید علی مرتضی کو انعام دینا ایک اچھی روایت ہے لیکن ساتھ ساتھ سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر نجم احمد شاہ کوانعام دینے کی تقریب میں نظر انداز کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ نجم احمد شاہ نے ٹیچنگ ہسپتالوں کی حالت بہتر کرنے کےلئے پچاس سالوں کے کام ایک سال میں کئے ہیں۔ ڈی سی جھنگ مدثر ریاض ملک اور ڈی سی بھکر سید بلال حیدر نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ لیکن افسر شاہی میں کمشنر فیصل آباد مومن آغا اور ڈی سی فیصل آباد سلمان غنی کو انعام دینے پر سوالیہ نشان اٹھائے جا رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن (ر) زاہد سعید نے صرف ان افسران کو زیادہ تعداد میں انعام کے لئے چنا جو وزیر اعلیٰ کی گڈ بک میں ہیں یا جو ایوان وزیر اعلی میں کام کر رہے ہیں ایوان وزیر اعلیٰ میں کام کرنے والے افسران نے عوام کیلئے کم اور مسلم لیگ ن کی حکومت کےلئے زیادہ کام کیا ہے۔ ایوان وزیر اعلی میں ایڈیشنل سیکرٹری، ڈپٹی سیکرٹری اور پی ایس او سارا دن اراکان اسمبلی کے کام کروانے میں مصروف عمل رہے ہیں اور اب وہی انعام کے حقداران پائے گئے ہیں ۔

 پنجاب سول سیکرٹریٹ میں ایک آواز یہ بھی بلند ہوئی ہے کہ سیکرٹریٹ میں سارا کام تو گریڈ ایک سے گریڈ سولہ تک کے ملازمین کرتے ہیں لیکن انعامات افسران کو مل گئے ہیں۔ اسی طرح کرائم فائٹنگ کا سارا کام اے ایس آئی، سب انسپکٹر اور انسپکٹر کرتے ہیں لیکن انہیں اس طرح کی انعامی تقاریب میں نظر انداز کیا گیا ہے ،انہیں کون انعام دے گا یا ان کے حصہ کا انعام افسران کے حصہ میں آئےگا۔ حکومت کو چاہیے کہ جونیئر گریڈ ملازمین کی حوصلہ افزائی کےلئے تحصیل اور ضلع کی سطح پر انعامات دینے کی تقاریب کی جائیں اور چھوٹے ملازمین کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے جو گرمی اور کڑی دھوپ میں کام کرتے ہیں اور اس سسٹم میں ریڑھ کی ہڈی ہیں۔

مزیدخبریں