سٹی42: تتلیاں نازک ہوتی ہیں؟ اوہ۔۔۔ لیکن وہ تو بہت بڑا سمندر بِنا دم لئے اڑ کر عبور کر لیتی ہیں۔ نازک سی تتلیاں یہ کیسے کر لیتی ہیں؟ اس سوال کا جواب فضائی شاہراہ کی تلاش اور اس سے فائدہ اٹھان کر کم انرجی کے ساتھ زیادہ پرواز کرنے کے ہنر میں پوشیدہ ہے۔ یہ ہنر بھی تتلیوں کو حاصل ہے؟ اوہ۔۔۔ لیکن وہ تو "نازک" ہوتی ہیں۔
سپین کے بوٹینیکل انسٹی ٹیوٹ آف Botanical Institute of Barcelona نے حال ہی میں دریافت کیا ہے کہ تتلیوں نے بحر اوقیانوس کے اوپر کم از کم 2600 میل فاصلہ راہ میں رکے بنا اڑ کر طے کیا۔
پینٹڈ لیڈی بٹرفلائی کی سمندر کے اوپر 4,200 کلومیٹر طویل پرواز
محققین نے 2013 میں فرنچ گیانا French Guiana میں تتلوں کی اس حیرت ناک طویل اڑان کی ابتدائی دریافت اس وقت کی جب انہوں نے پینٹڈ لیڈی بٹر فلائیز کے ایک جھنڈ کو ریت پر بیٹھے دیکھا، جن کے پر بکھرے ہوئے تھے اور ان میں سوراخ نظر آرہے تھے۔
اس دریافت نے سائنسدانوں کے ذہنوں کو گھما دیا تھا کیونکہ یہ تتلیاں دنیا بھر میں تو عام پائی جاتی ہیں مگر جنوبی امریکا میں نظر نہیں آتیں۔ اس کے بعد بوٹینیکل سائنسدان دس سال تک تحقیق کرتے رہے کہ تتلیاں جنوبی امریکا میں کیسے پہنچیں۔
اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم تتلیوں کو نازک تصور کرتے تھے لیکن وہ تو ہمارے تصور کے احاطہ میں آنے والی سخت جانی سے بھی کچھ زیادہ سخت جان ہیں۔
تتلیوں کی صلاحیتوں کے اسرار
سائنسدان طویل عرصہ پہلے تجربات سے یہ جان چکے تھے کہ تتلیوں کی زندگی کے مراحل کیا ہوتے ہیں اور پر اگا کر خوبصورتی کا استعارہ بننے سے پہلے لاروا حالت میں وہ کیسی دکھائی دیتی ہیں، اب یہ بھی معلوم ہوا گیا کہ وہ محض خوبصورت نہیں بلکہ مکمل ترین مخلوق ہوتی ہیں جو بقا کی خاطر محئیر العقول کام کر ڈالتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اب بھی ہمیں تتلیوں کی صلاحیتوں کے بارے میں بہت کچھ جاننا ہے۔
تتلیوں کے طویل سفر کی ٹریکنگ
تتلیوں کی بقا کی خاطر بعض دوسرے حشرات کی طرح ہجرت غیرمعمولی نہیں مگر ان کو ٹریک کرنا مشکل سائنسدانوں کے لئے نسبتاً مشکل ثابت ہوا۔تتلیوں کے کیس میں ریسرچرز نے ان کے سفر کے بارے میں جاننے کے لیے کئی متنوع ذرائع کو استعمال کیا۔ پہلے انہوں نے تتلیوں کے جینومز کے سیکونس تیار کیے جن سے معلوم ہوا کہ وہ یورپ اور افریقا سے تعلق رکھتی ہیں۔انہوں نے پولن ڈی این اے کا تجزیہ بھی کیا، ان کے پروں کی جانچ بھی کی گئی جس سے بھی ان کا افریقا اور یورپ سے تعلق ثابت ہوا۔ ان شواہد سے یہ یقین ہوا کہ ان تتلیوں کا تعلق امریکا سے نہیں تھا بلکہ ان کی زندگی افریقا یا یورپ میں شروع ہوئی تھی۔ محققین کے مطابق یہ تتلیاں مغربی افریقا سے جنوبی افریقا پہنچی تھیں اور انہوں نے بحر اوقیانوس کے اوپر 2600 میل کا فاصلہ طے کیا۔
صحارا کی ہواؤں کا سہارا
تتلیوں نے اس کارنامے کو کس طرح منظم کیا اس کی وضاحت کرتے ہوئے، مضمون کے شریک مصنفین میں سے ایک، ایرک ٹورو-ڈیلگاڈو نے وضاحت کی: "تتلیاں صرف فعال پرواز کے درمیان متبادل حکمت عملی کا استعمال کرتے ہوئے اس پرواز کو مکمل کر سکتی ہیں، جو توانائی کے لحاظ سے مہنگی ہوتی ہے، اور ہوا کو تیز کرتی ہے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ ہوا کے بغیر، تتلیاں اپنی تمام چربی اور اس وجہ سے اپنی توانائی استعمال کرنے سے پہلے زیادہ سے زیادہ 780 کلومیٹر تک اڑ سکتی تھیں۔"
تتلیوں نے ممکنہ طور پر سہارا کی ہوا کی اُس تہہ کا استعمال کیا ہے، جو افریقہ سے امریکہ تک دھول کا ایک کنویئر ہے۔ یہ ہوا کے دھارے، جو ایمیزون میں صحارا کی دھول کے ساتھ کھاد ڈالنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے، جانداروں کے لیے ایک شاہراہ بھی دکھائی دیتے ہیں۔
حیاتیاتی تنوع میں فضائی شاہراہ کا کردار
درحقیقت، یہ ٹرانس اٹلانٹک پرواز دور دراز براعظموں کو آپس میں جوڑنے والی قدرتی فضائی شاہراہوں کے وجود کی طرف اشارہ کرتی ہے، جو کہ ہم نے سوچا تھا کہ اس سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر پرجاتیوں کو منتشر کرنے کا اہل بنا سکتا ہے۔
ریسرچرز کا کہنا ہے کہ اگر ان تتلیوں نے افریقہ سے بھی پرے اپنے اصل علاقہ یورپ سے یہ سفر آغاز کیا تھا تو یہ فاصلہ 4350 میل یا اس سے زائد ہوگا اور یہ ایک چھوٹے سے کیڑے کے لئے ازحد غیرمعمولی سفر ہے۔
دراصل ریسرچرز کو یہ پہلے سے معلوم ہے کہ اس نسل کی تتلیاں یورپ اور افریقہ کے درمیان 9 ہزار میل کا فاصلہ طے کرتی ہیں مگر اس طویل راستے میں انہیں رات کو آرام کرنے کا موقع ملتا ہے اور راستے میں خوراک بھی آسانی سےمل جاتی ہے۔
مگر مغربی افریقہ سے جنوبی امریکہ جانے کے لیے تتلیوں کو 8 دن تک آرام کیے بغیر مسلسل اڑنا پڑتا ہوگا۔
اب آپ بھی مان لیجئے کہ تتلیاں نازک تو ہوتی ہیں لیکن محض نازک نہیں وہ بہت سخت جان اور ہار نہ ماننے والی بھی ہوتی ہیں۔
گلوبل وارمنگ اور ہجرتیں
گلوبل وارمنگ اور آب و ہوا کے بڑھتے ہوئے بدلاؤ کے ساتھ، سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ ہم اس طرح کے طویل فاصلے تک ہجرتوں کے واقعات میں مزید واضح تبدیلیاں اور اضافہ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ تبدیلیاں پوری دنیا میں حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی نظام پر گہرا اثر ڈال سکتی ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہوئے۔ مکمل آرٹیکل پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے