لارنس روڈ (اناشیہ پاشا) والڈ سٹی اتھارٹی کی جانب سے اندرون لاہور میں صدیوں پرانا کوتوالی نظام دوبارہ متعارف، گلیوں بازاروں میں گشت کرتے کوتوال توجہ کا مرکز بن گئے۔ خاکی وردی، شملے والی پگڑی، ہاتھ میں ڈنڈا پکڑے، گشت کرتے اہلکار، انہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے پرانا دور واپس آگیا۔
والڈ سٹی اتھارٹی کی جانب سے اندرون لاہور میں کوتوال سسٹم متعارف کرایا گیا ہے، ان اہلکاروں کو باقاعدہ تربیت کے بعد فیلڈ ڈیوٹی دی گئی ہے، کوتوال مدثر فاروق پورے ٹھاٹھ سے گشت کرتے ہیں، ان کے اس انداز سے کچھ لوگ گھبرا جاتے ہیں تو کچھ انہیں سراہتے ہیں۔
آخر کوتوال سسٹم کو متعارف کرانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس پر والڈ سٹی اتھارٹی کا موقف ہے کہ جہاں اندرون لاہور کی قدیم عمارتوں کو بحال کیا گیا ہے، وہیں قدیم انتظامی امور کی ایک جھلک دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
مونچھوں کو تاو دیتے کوتوال فی الحال نمائشی عہدے کے ساتھ کام کر رہے ہیں، شہری ان کے ساتھ سیلیفاں لے کر اپنی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں، کوتوال کی تعیناتی سے نہ صرف انتظامی امور بہتر ہوں گے بلکہ ماضی کے لمحات بھی بھر سے اجاگر ہو جائیں گے اور ساتھ ہی نوجوان نسل تاریخ سے روشناس ہوگی ۔
واضح رہےکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں لاہور کے آخری کوتوال (1835-1840) سردار جے مل سنگھ تھے،انگریز دور میں لاہور کے پہلے کوتوال خدا بخش تھے، وہ ککے زئی برادری سے تعلق رکھتے تھے،انھیں انگریزسپاہیوں سے شاہی قلعہ کے توشہ خانہ سے چوری شدہ قیمتی اشیا برآمد کرنے پر پانچ ہزار روپے اور 50 تولہ سونا انعام میں دیا گیا تھا، پھر چودھری رحمت اللہ کے 1901 میں کوتوال ہونے کا ایک تصویر سے پتا ملتا ہے۔