سٹی 42:سر پر چھت نہ بہن بھائیوں کاپیار،نشے کے شوق نے زندگی برباد کردی ۔
لاہور کے علاقے میاں میر میں رہنے والے نشے کے عادی نوجوان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس لت سے اپنی زندگی اس قدر تباہ کر لی کہ اب نہ سر پر چھت ہے اور نہ بہن بھائیوں کا پیار۔
نوجوان نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ والد ایک انجینیئر تھے اور وہ تین بہن بھائی ہیں، انہیں نشے کی لت میٹرک میں سگریٹ سے شروع ہوئی اور کالج میں داخلہ لینے کے بعد دوستوں کے ساتھ چرس اور شیشہ پینا شروع کردیا۔ شوق کب مجبوری میں بدل گیا پتہ ہی نہ چلا۔ کچھ عرصے بعد ایک دوست نے ہیروئن پینے کی طرف راغب کیا اور آہستہ آہستہ کبھی کبھار ہیروئن کی عادت مستقل ہوگئی۔
رضوان کے مطابق انہوں نے بی اے فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا تو گھر والوں کے اصرار پر بھی یونیورسٹی داخلہ نہیں لے سکے، جب ان کی شادی کی گئی تو گھر والوں کو معلوم نہیں تھا کہ وہ منشیات کے عادی ہوچکے ہیں۔
رضوان نے بتایا کہ انہوں نے پرائیویٹ نوکری بھی کی لیکن جب نشے کی عادت بڑھ گئی اور والدہ بیماری کی حالت میں فوت ہوئیں تو وہ نوکری چھوڑ کر گھر کا سامان بیچنے پر آگئے، دو سال بعد بیوی نے بھی خلا لے لی۔ ان کے والد نے تین لاکھ روپے خرچ کر کے ان کا علاج کروایا لیکن وہ اس علت سے نجات نہ پاسکے، والد کی وفات کے بعد بھائی نے رضوان کو گھر سے نکال دیا۔نشے کی لت اور گھر والوں کی نفرت کے باعث زندگی میں ہی قبرستان کو رہائش بنا رکھا ہے۔
اب بھیک مانگ کر گزارا کرنے پر مجبور ہوں ۔ تاہم اس سے جمع پیسے بھی نشے میں استعمال ہوجاتے ہیں،اب تو لگتا ہے زندگی صرف نشہ کرنے کے لیے رہ گئی ہے، معلوم نہیں کب مر کر لاوارث لاش بن جاؤں۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی منشیات کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ شہروں اور دیہاتوں کے بازاروں یا گلیوں کے کونوں میں نشہ کرنے والے افراد اکثر عام دکھائی دیتے ہیں۔ انسداد منشیات مہم پنجاب کے کنسلٹنٹ ذوالفقار حسین کے مطابق اپریل میں لاک ڈاؤن کے دوران لاہور کی مختلف سڑکوں، باغوں اور پارکوں میں منشیات کے عادی افراد کی 51 لاشیں ملیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک تشویش ناک صورت حال ہے کیونکہ اس سے قبل ہر ماہ 24 سے 28 منشیات کے عادی افراد کی لاشیں لاہور کے مختلف علاقوں سے ملتی تھیں۔ اس وقت چرس، افیون، ہیروئن، شیشہ، برشاشا، شراب، کوکین اور نشہ آور امپورٹڈ چیونگ گم کا نشہ استعمال ہو رہا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے سینیئر وکیل سید نوید عباس کے مطابق سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں 1993 میں قومی انسداد منشیات پالیسی بنائی تھی جس کے باعث کئی ادارے اور ڈرگ انفورسمنٹ سٹرکچرز وجود میں آئے۔ تاہم ان اداروں کے مابین کوئی موثر میکنزم قائم نہ ہوسکا اور نہ ہی ان اداروں میں کوئی کوآرڈینیشن تھا، جس کے نتیجے میں ڈرگ ٹریفکنگ اور منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔