ویب ڈیسک :پاک فوج کے پہلے نشان حیدر کیپٹن محمد سرور شہید کا 73واں یوم شہادت آج منایا جارہا ہے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے پوری قوم کی جانب سے کیپٹن محمدسرورشہید کو بھرپور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کیپٹن سرورکی جرات وبہادری، حب الوطنی ہمیشہ یادرکھی جائے گی۔
رپورٹ کے مطابق آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ کیپٹن سرورشہیدنے1948کشمیرکی جنگ میں جرات وبہادری کی داستان رقم کیں ، ان کی جرات وبہادری،حب الوطنی ہمیشہ یادرکھی جائےگی، کیپٹن سرورشہیدنےجان کانذرانہ دیکروطن کادفاع یقینی بنایا۔
کیپٹن سرور شہید، 10 نومبر 1910ء کو موضع سنگھوری ، تحصیل گوجر خان ، ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم آبائی علاقے سے حاصل کی ۔ 15اپریل 1929ء کو آپ فوج میں سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوگئے ۔1941ء میں براہ راست آرمی سروس جونیئرکمیشنڈ آفیسر کی حیثیت سے منتخب ہوئے ۔چھ ماہ بعد صوبیدار کے عہدے پر ترقی پائی ۔19مارچ 1945ء کو آپ سیکنڈ لیفٹیننٹ بنادیئے گئے،اگلے سال ترقی کرکے کیپٹن کے عہد ے پرفائز ہوکر قیام پاکستان کے بعد 2پنجاب رجمنٹ کا حصہ بن گئے ۔ا1948ء میں جب وہ پنجاب رجمنٹ کے سیکنڈ بٹالین میں کمپنی کمانڈر کے عہدے پر خدمات انجام دے رہے تھے ، انہیں کشمیر میں آپریشن پر مامور کیا گیا۔یہ 27 جولائی 1948ء کا واقعہ ہے جب انہوں نے اوڑی سیکٹر میں دشمن کی اہم فوجی پوزیشن پر حملہ کیا۔ جب وہ دشمن سے صرف 30 گز کے فاصلے پر پہنچے تو دشمن نے ان پر بھاری مشین گن ، اور مارٹر گنوں سے فائرنگ شروع کر دی۔ اس حملے میں پاک فوج کے جوانوں کی ایک بڑی تعداد شہید اور زخمی ہوئی۔ جوں جوں مجاہدین کی تعداد میں کمی آتی گئی ان کا جوش و جذبہ بڑھتا چلا گیا۔ پھر کپٹن راجا محمد سرور نے اپنے شہید ساتھی کی گن کو خود سنبھالا اور گولیوں کی بارش برساتے ہوئے بہت دور تک نکل گئے۔ اب دشمن کا مورچہ صرف 20 گز کے فاصلے پر تھا ۔ اس موقع پر اچانک انکشاف ہوا کہ دشمن نے اپنے مورچوں کو خاردار تاروں سے محفوظ کر لیا ہے۔ کپٹن سرور اس غیر متوقع صورت حال سے بالکل ہراساں نہ ہوئے اور برابر دشمن پر فائرنگ کرتے رہے۔
اس دوران میں اپنے ہاتھ سے دستی بم ایسا ٹھیک نشانے پر پھینکا کہ دشمن کی ایک میڈیم مشین گن کے پرزے اڑ گئے مگر اس حملے میں ان کا دایاں بازو شدید زخمی ہوا مگر وہ مسلسل حملے کرتے رہے۔ انہوں نے ایک ایسی برین گن کا چارج لیا جس کا جوان شہید ہو چکا تھا چنانچہ اپنے زخموں کی پروا کیے بغیر چھ ساتھیوں کی مدد سے خاردار تاروں کو عبور کرکے دشمن کے مورچے پر آخری حملہ کیا ۔ دشمن نے اس اچانک حملے کے بعد اپنی توپوں کارخ کپٹن سرور کی جانب کر دیا ۔ یوں ایک گولی کپٹن سرور کے سینے میں لگی اور انہوں نے وہاں شہادت پائی۔ مجاہدین نے جب انہیں شہید ہوتے دیکھا تو انہوں نے دشمن پر ایسا بھرپور حملہ کیا کہ وہ مورچے چھوڑ کر بھاگ گئے۔کیپٹن سرور شہید کو کوتل پترا پر پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کردیا گیا ۔ انھیں پاکستان کا پہلا نشانِ حیدر دیا گیا۔