’’ بڑوں “ کی سمجھ کہاں گئی ؟

نوید چوہدری

27 Feb, 2025 | 11:31 PM

غیر ضروری سرگرمیاں صرف وقت اور وسائل کا ضیاع ہی نہیں بلکہ اس سے غیر سنجیدگی کا تاثر بھی پھیلتا ہے -محاورہ ہے کہ’’ اعمال کی آواز الفاظ سے کہیں زیادہ ہوتی ہے “ ۔

 ریاستی اداروں کو اپنی حیثیت منوانے  کے لیے کسی عوامی رابطہ مہم کی ضرورت نہیں ہوتی ، رائے عامہ کا جائزہ لینے کے لیے عوامی میل جول ایک حد تک رکھا جاسکتا ہے ، پراجیکٹ نیا پاکستان کے سبب ملک کو جن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی حقیقی نوعیت جانے بغیر نمٹنے کے لیے جو کچھ بھی کیا جائے گا رائیگاں جائے گا،بات آگے بڑھانے سے پہلے 2022 کا ایک واقعہ سن لیں،اس وقت کے وزیر اعظم  عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے والی تھی،بیرون ملک سے آئے ایک عزیز اپنی فیملی کے ہمراہ میرے گھر پر ٹھہرے ہوئے تھے ،ان کے ایک واقف کار ڈاکٹر دوست نے سب کو رات کے کھانے پر مدعو کیا ،ڈی ایچ اے میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچے ، صرف میزبان ہی نہیں ان کی اہلیہ اور 3 بچے بھی ڈاکٹر تھے ،یہ میری پہلی ملاقات تھی،جب پتہ چلا کہ میرا تعلق شعبہ صحافت سے ہے تو ڈاکٹر نے فیصلہ کن انداز میں سیاسی گفتگو شروع کردی، میں نے فیملی ماحول دیکھ کر بات ٹالنے کی کوشش کی لیکن ان کا یوتھیاپا سر چڑھ کر بول رہا تھا ، عمران کے سوا سارے چور ہیں ، سب کرپٹ ہیں ، باجوہ غدار ہے وغیرہ وغیرہ ، میں نے پوچھا کس نے کیا چوری کی ؟ ڈاکٹر کے پاس کسی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا ،صرف الزامات کی گردان تھی ، ڈاکٹر نے نواز شریف اور آصف زرداری سے لے کر  مولانا فضل الرحمن تک سب کے بارے میں ہتک آمیز ریمارکس دئیے ،ڈاکٹر چپ نہ ہوا تو میں نے کہا اب میں پی ٹی آئی کے بارے چند باتیں کرنے لگا ہوں جو غلط لگے ٹوک دیجئے گا ،عمران خان , علیمہ ، پنکی ، زلفی ، فرح گوگی اور درجن کے قریب بڑے کرپشن سکینڈلوں کا ذکر کیا  ڈاکٹر زچ ہوگیا  پھر یہ کہہ کر پیچھے ہٹ گیا کہ جو بھی ہو عمران خان باقی سب سے کہیں بہتر ہے۔

 اس طرح کا واقعہ صرف میرے ساتھ ہی نہیں کئی اور کے ساتھ بھی پیش آیا ہوگا ، اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ “ پڑھے لکھے لیکن سیاسی طور ناخواندہ افراد “ کا ایسا طبقہ اس وقت ریاست کے لیے بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے  لیکن اس کا حل یہ ہرگز نہیں کہ ریاستی ادارے ایسے لوگوں کی رائے تبدیل کرنے کے لیے عمومی انداز میں انٹر ایکشن کرنے لگ جائیں ،اس سے لاکھ درجہ بہتر اور کارآمد نسخہ یہ ہے کہ جس پر جو مقدمات ہے وہ بھرپور طریقے سے چلا کر سزائیں دلوائیں، فیک نیوز کے خلاف مسلسل کریک ڈاؤن کریں،دو عملی اور نرمی کے تاثر کو یکسر ختم کریں،ریاست اپنے اقدامات میں سنجیدہ دکھائی دینا شروع ہو جائے گی تو اوقات سے باہر ہونے والے ایسے تمام عناصر خود ہی راہ راست پر آ جائیں گے   جو ریاستی اداروں کی اپنی پروپیگنڈا مہم جوئی کے نتیجے میں کپتان کو اوتار مان بیٹھے ہیں، آئی ایس پی آر کے ذمہ داران کی تعلیمی اداروں میں آمد سے کیا حاصل ہوگا ؟ جب سوالات کرنے والے ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کے سانچے میں ڈھل چکے ہوں، انہیں سمجھانے کی کوشش ایسے ہی ہے جیسے کوئی دیوار سے باتیں کرئے ،’’ یوتھیا سدھار مہم “ چاہے لاکھ نیک نیتی سے چلائی جائے اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ  ادارے خود کٹہرے میں آکر اپنی صفائیاں پیش کررہے ہیں،امید کی جانی چاہیے کہ جن کو مخاطب کیا گیا ہے وہ اس نکتے پر غور کریں گے ۔

 فورسز اور ایجنسیوں کے معالات وقار اور دبدبے کے ساتھ چلتے ہیں،آئینی عہدیداروں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ،سب نے دیکھ لیا کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے عدالتی اصلاحات کے حوالے سے پی ٹی آئی کے وفد کے ساتھ جو ملاقات کی ، اس کے بعد کس طرح سے غلط فہمیاں پیدا کی گئیں،اس ملاقات کے آغاز پر ہی  چیف جسٹس نے واضح کردیا تھا کہ وہ کسی نوعیت کے سیاسی سوالات کا جواب نہیں دیں گے ۔

 پی ٹی آئی نے سارا فوکس ہی اپنے بیانیے پر رکھا ، لوگ اس وقت حیران رہ گئے جب اس ملاقات کے حوالے سپریم کو رٹ آفس کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں تمام سیاسی مطالبات اور الزامات کا ذکر بھی کردیا گیا، ایسے مقدمات کا بھی جو زیر سماعت ہیں، چیف جسٹس کی اس سے قبل وزیر اعظم سے جو ملاقات ہوئی وہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو تحفظ دینے ، ٹیکس کیسسز جلد نمٹانے جیسے امور سے متعلق تھی ،اس ملاقات کا قانونی اور اخلاقی جواز موجود تھا ، یہ اپنی جگہ ایک سوال ہے کہ چیف جسٹس کو پی ٹی آئی کے وفد سے ملنے کی کوئی ضرورت تھی ؟ عدالتی اصلاحات پر رائے ہی طلب کرنا تھی تو ایسا تحریری طور پر بھی کیا جاسکتا ہے ،اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کے حامیوں سے رابطے کرکے خود کو نیوٹرل ثابت کرسکتا ہے تو یہ سوچ درست نہیں، یہ بات ایک بار نہیں کئی بار ثابت ہوچکی مگر ریاست کے بڑوں کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ 

مزیدخبریں