ویب ڈیسک : کھایا پیا کچھ نہیں اور گلاس ٹوٹا بارہ آنے۔ ایسی ہی حالت آج پاکستان خاص طور پر راولپنڈی اسلام آباد میں کرکٹ کے شائقین کی ہے۔ کیونکہ پہلے آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ اور اب بنگلہ دیش اور پاکستان کا میچ بارش کے باعث منسوخ ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ شائقین کرکٹ ٹکٹوں کے پیسے کیسے لیں
کھیلوں سے لگاؤ رکھنے والے اور خاص طور پر برسوں بعد کسی بڑے ایونٹ میں اپنے پسندیدہ کھیل کا لطف لینے کی امید پر رقم خرچ کرنے والے یقیناً اس احساس سے اچھی طرح واقف ہوں گے کیونکہ جس بارش کا پاکستانیوں کو پورے موسمِ سرما انتظار رہا وہ برسی بھی تو چیمپیئن ٹرافی کے میچز کو بہا کر لے گئی۔شائقین ٹکٹ تھامے بے بسی سے سُونے گراؤنڈ کو تک کر واپس لوٹ گئے اور تو اور ان کے ٹکٹوں کی رقم بھی ڈوب گئی۔
اب آپ کہیں گے میچ نہیں ہوا تو پیسے واپس ہونے چاہیں لیکن یہ اتنا آسان نہیں۔ اس کی بھی شرائط ہیں ۔
انہی شرائط میں ہے کہ اگر آپ منتظمین کو ٹکٹ دکھا کر شائقین کی نشستوں پر جا بیٹھے ہیں اور میچ شروع ہو کر رکا تو بھی ٹکٹ ناقابلِ واپسی ہے۔ اگر آپ بیٹھے لیکن میچ نہیں ہوا تب بھی۔ حتیٰ کے آپ صرف سٹیڈیم میں داخل ہو گئے تب بھی شرائط کو دیکھنا پڑے گا۔
شہریوں کا کہنا تھا کہ انھیں اندازہ ہے کہ ٹکٹوں کے لیے ان کی رقم ڈوب گئی ہے۔ تاہم انھوں نے کہا ’ہم نے انٹرنیٹ پر سرچ کیا لیکن کوئی ری فنڈ کی امید نظر نہیں آئی۔ اور ہم ٹکٹ سکین کروا کر نشستوں تک جا چکے تھے۔ لیکن یہ ہماری قسمت تھی۔ ہم نے ای میل کر تو دی ہے کہ ہم نے میچ نہیں دیکھا اور ری فنڈ کے لیے اپلائی کر دیا ہے۔‘
راولپنڈی میں دو میچز بارش کی نذر ہونے کے بعد اس وقت بیشترکرکٹ شائقین یہی پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ میچ نہ ہوں تو ٹکٹوں کے پیسے کیسے واپس ہوں؟ ٹکٹوں کی ری فنڈ کی پالیسی ہے کیا اور کس کس صورت میں آپ میچ نہ ہونے کے جذباتی نقصان سے نہ سہی تو ٹکٹ ضائع ہونے کے مالی نقصان سے بچ سکتے ہیں۔
ٹکٹ کی رقم کی واپسی کب کب ممکن ہے؟
آئی سی سی کی چیمئنز ٹرافی 2025 سے متعلق ویب سائٹ پر ٹکٹوں کے ری فنڈ سے متعلق قواعد و ضوابط کچھ یوں ہیں۔
میچ منسوخی کی صورت میں: اگر کوئی میچ ٹاس سے پہلے خراب موسمی حالات یا دیگر غیر متوقع حالات سمیت کسی بھی وجہ سے منسوخ ہوجاتا ہے تو ٹکٹ ہولڈرز ٹکٹ کی قیمت کی مکمل واپسی کے حقدار ہیں۔ تاہم اس کے لیے اصل ٹکٹ واپس کرنے ہوں گے۔ لیکن اگر ٹکٹ داخلے کے لیے سکین ہو جاتا ہے تو کوئی ریفنڈ لاگو نہیں ہوگا، بھلے ہی میچ کا ٹاس نہ ہوا ہو۔
موسم سے متعلق ریفنڈ کی پالیسی: اگر ٹاس ہونے کے بعد میچ منسوخ کر دیا جاتا ہے، بے شک ایک بھی گیند نہ پھینکی جائے تو کوئی ریفنڈ جاری نہیں کیا جائے گا۔ خراب موسم، کھیل کے حالات، قومی سوگ یا دیگر غیر یقینی حالات کی وجہ سے ٹاس کے بعد منسوخ یا منسوخ ہونے والے میچز کے ٹکٹس ریفنڈ کے اہل نہیں ہوں گے۔
میچوں کے ری شیڈول یا منتقلی کی صورت میں: اگر کسی میچ کو ری شیڈول کیا جاتا ہے اور ٹکٹ خریدار نئی تاریخ میں شرکت نہیں کرسکتا ہے تو وہ ٹکٹ کی رقم کی واپسی کے اہل ہیں۔ اگر مقام تبدیل ہوتا ہے اور ٹکٹ خریدار نئے مقام پر شرکت نہیں کرسکتا ہے تو وہ ٹکٹ کی رقم کی واپسی کے اہل ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی میچ ملتوی کر دیا جاتا ہے اور ٹکٹ خریدنے والا ری شیڈول تاریخ میں شرکت نہیں کرسکتا ہے تو وہ ٹکٹ کی رقم کی واپسی کے اہل ہیں۔
رقم واپس کیسے لی جا سکتی ہے ؟
اگر اوپر بتائے کسی بھی وجہ سے آپ اپنا ٹکٹ لوٹا کر رقم واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو رقم کی واپسی کی درخواست کرنے کے لیے متعلقہ کرکٹ بورڈ کے ہیڈ آف ٹکٹنگ سے ای میل کے ذریعے رابطہ کرنا ہوگا۔ واپسی کی درخواست کی وجہ کے ساتھ آرڈر نمبر اور سیٹ کی معلومات سمیت ٹکٹ کی تفصیلات فراہم کرنا ہوتی ہے۔
میچ منسوخ ہونے، ری شیڈول کرنے، منتقل کرنے یا ملتوی ہونے کے تیس (30) دنوں کے اندر ریفنڈ کی درخواستیں جمع کرانا ضروری ہیں۔ مخصوص مدت میں ایسا نے کرنے پر رقم کی واپسی کا دعویٰ کرنے کا حق باقی نہیں رہے گا۔اسی عمل کا اطلاق ٹکٹوں کی آف لائن خریداری پر بھی ہوتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ خریداری کی تمام رسیدیں اور دستاویزات سنبھال کر رکھیں۔
کن صورتوں میں رقم واپس نہیں ملے گی:
اگر ٹاس کے بعد میچ منسوخ کر دیا گیا۔
خراب موسم، کھیل کے ناساز حالات، قومی سوگ کی صورت میں یا ٹاس کے بعد میچ منسوخ ہونے کی صورت میں۔
ٹکٹ کی دوبارہ فروخت یا کسی دوسرے شخص کو منتقل کرنے کی صورت میں
غیر مجاز تھرڈ پارٹی وینڈرز یا ری سیل پلیٹ فارمز کے ذریعے خریدے گئے ٹکٹ۔
ضوابط کی خلاف ورزی کی وجہ سے مقام سے بے دخلی کی صورت میں۔
مفت ٹکٹ یا پاسز
ٹکٹ گم ، چوری یا مسخ ہونے کی صورت میں
ذاتی وجوہات یا منصوبوں کی تبدیلی کی وجہ سے
بیرونی عوامل جیسے پبلک ٹرانسپورٹ، سڑکوں کی بندش، سکیورٹی چیکنگ و نگرانی وغیرہ کی وجہ سے سٹیڈیم میں داخلے میں تاخیر کی صورت میں
وہ ٹکٹ جو غیر مجاز ذرائع سے خریدے گئے
ٹکٹ کون خرید سکتا ہے اور کیسے استعمال کیے جا سکتے ہیں؟
آئی سی سی کے ساتھ ساتھ پی سی بی کی جانب سے بھی چیمپیئن ٹرافی 2025 کے ٹکٹوں کی خرید و فروخت اور استعمال کے لیے رہنما اصول جاری کیے گئے ہیں۔
جن کے مطابق ٹکٹ خریدنے والوں کی عمر اٹھارہ (18) سال یا اس سے زیادہ ہونی چاہیے اور خریداری کے وقت اپنا پاسپورٹ نمبر یا کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) نمبر فراہم کرنا ضروری ہے۔
ٹکٹ صرف سرکاری ٹکٹنگ ایجنٹوں یا مجاز ایجنٹوں کے ذریعہ یا کرکٹ بورڈ کے ذریعہ یا اس کی طرف سے تحریری طور پر مجاز کسی دوسرے فروخت یا منتقلی کے طریقہ کار کے ذریعے خریدے جا سکتے ہیں۔ کسی بھی فرد، تنظیم یا کسی تیسرے فریق کی طرف سے فروخت کردہ کوئی بھی ٹکٹ درست نہیں ہو گا جس کا نام ایسی فہرستوں میں نہیں ہے۔
کسی بھی ٹکٹ کی فروخت یا اجرا حتمی اور ناقابل واپسی ہے سوائے ان حالات کے جو ٹکٹ ریفنڈ پالیسی میں بیان کیے گئے ہیں۔
کسی بین الاقوامی کرکٹ ٹورنامنٹ کے دوران کوئی بھی میزبان کرکٹ بورڈ کسی بھی ایسے ٹکٹ کو تبدیل کرنے یا قبول نہ کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں جو گم شدہ، چوری، گھر بھول جانے والے، خراب یا جعلی، یا کوئی بھی ٹکٹ جو پڑھنے کے قابل نہ رہا ہو یا نامکمل ہو۔
ایک ہی شناختی کارڈ / پاسپورٹ استعمال کرنے والا کوئی بھی شخص فی میچ زیادہ سے زیادہ چار ٹکٹ خرید سکتا ہے۔
چونکہ یہ تمام ٹکٹ خریدار کے نام پر جاری ہوتے ہیں اس لیے ٹکٹوں کی منتقلی ممکن نہیں ہے۔ ایک ٹکٹ خریدار صرف اپنے ذاتی استعمال اور اپنے مہمان کے لیے ٹکٹ خرید سکتا ہے۔ ہر ٹکٹ خریدار کو اپنے ذاتی استعمال کے لیے کم از کم ایک ٹکٹ اپنے پاس رکھنا ضروری ہے اور بقیہ ٹکٹ اپنے مہمانوں کو منتقل کرسکتا ہے۔ لیکن یہ مہمان ٹکٹ خریدار کو ذاتی طور پر جانتا ہو۔
ٹکٹ کسی ایسے شخص کو پیش کش یا منتقل نہیں کیا جا سکتا جس سے ٹکٹ کے بدلے میں کوئی سامان یا خدمات خریدنے پر رضامندی حاصل کی گئی ہو۔
ٹکٹ خریدار کسی دوسرے شخص کے لیے ایجنٹ کے طور پر کوئی ٹکٹ نہیں خرید سکتا ہے اور نہ ہی ٹکٹ خریدار اور نہ ہی کوئی مہمان کسی بھی طریقے سے ٹکٹ کی فروخت کی پیش کش یا نیلامی کر سکتا ہے۔
ے۔
ٹکٹوں خریداری کا ثبوت اپنے پاس سنبھال کر رکھیں جن میں رسیدیں اور تصدیقی ای میلز شامل ہیں کیونکہ واپسی کے دعوؤں کے لیے ان کی ضرورت ہوسکتی ہے۔میچوں کےبارے میں خبر رکھیں اور ریفنڈ کے طریقہ کار کے بارے میں تازہ ترین معلومات کے لیے باقاعدگی سے سرکاری سائٹس اور ذرائع پر نظر رکھیں۔