سیف سٹی اتھارٹی سفید ہاتھی ثابت ہونے لگا

27 Feb, 2020 | 08:18 PM

Arslan Sheikh

( عرفان ملک ) عوام کی جان ومال کا تحفظ حکومتی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔ سکیورٹی کے پیشِ نظر مختلف اقدامات کیے جاتے ہیں وہیں ایسے پراجیکٹس بھی لگائے جاتے ہیں جو آنے والے وقت میں ملک و قوم کو کسی بھی بڑی مشکل سے بچنے میں مددگار ثابت ہوسکیں۔

پاکستان میں سب سے پہلے اسلام آباد میں سیف سٹی پراجیکٹ شروع کیا گیا۔ اسلام آباد پولیس نے سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت شہر بھر میں 2 ہزار کیمرے نصب کیے۔ اسلام آباد سیف سٹی پراجیکٹ کے بعد لاہور سیف سٹی پراجیکٹ کی شروعات ہوئی۔ اس پراجیکٹ کو لگانے کے لیے پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی قیام میں لائی گئی ہے جس کے تحت لاہور شہر میں 8 ہزار کیمروں کی تنصیب مکمل کی گئی۔

سیف سٹی اتھارٹی کے قیام سے ابتک شہر میں کرائم کا گراف نیچے نہ آیا اور شہر میں سٹریٹ کرائم کے ساتھ ساتھ چوری و ڈکیتی کی وارداتوں میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا۔ سیف سٹی اتھارٹی نے اپنی خامیاں چھپانے کیلئے فنڈز کی کمی کو بہانہ بنالیا۔

حکومت کو بتایا گیا ہے کہ کیمروں کی منٹیننس کیلئے فنڈز نہ ہونے کے باعث کیمرے خراب ہو رہے ہیں جس پر حکومت کی جانب سے ایک ارب کے فنڈز بھی جاری کیے گئے، تاہم ایک بار پھر محکمہ فنانس سے ساٹھ کروڑ روپے کا تقاضا کر دیا گیا ہے۔

سیف سٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اتھارٹی کیلئے مختص پندرہ سو ملین میں سے ابتک آٹھ سو ملین سے زائد مل چکے ہیں۔ سیف سٹی اتھارٹی کے معاملات چلانے کیلئے بقایا رقم کی فوری ضرورت ہے۔ اتھارٹی کے شہر میں ابھی بھی پانچ ہزار سے زائد کیمرے خراب ہیں۔

مزیدخبریں