ویب ڈیسک : پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات شازیہ مری نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی رچرڈ گرینل کی جانب سے سینیٹر اور ان کی جماعت کی رہنما شیری رحمٰن کے تھنک ٹینک ادارے جناح انسٹی ٹیوٹ سمیت پاکستان کے دیگر اندرونی معاملات پر بیانات کو ’ٹرولنگ‘ قرار دیا ہے۔
رچرڈ گرینیل ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندہ برائے خصوصی مشن مقرر ہونے کے بعد ایکس پر پاکستان کے حوالے سے بھی متعدد پوسٹس کرچکے ہیں ۔ وہ ٹی وی پروگراموں میں بانی چیئرمین عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کر چکے ہیں
پیپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمٰن کے تھنک ٹینک جناح انسٹی ٹیوٹ کو دی جانے والی گرانٹ کے حوالے سے ایک ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ وہ ’بے نقاب‘ ہو گئی ہیں اور امریکہ کے ٹیکس ادا کرنے والوں کی رقم ضائع ہوگئی۔
شازیہ مری کا کہنا تھا کہ ’آنے والی امریکی حکومت کے ایک ترجمان کی طرف سے یہ بات آئی ہے جو کہ بڑی افسوس ناک بات ہے، ہم امریکہ کو ایک اہم اتحادی سمجھتے ہیں، ہم امریکہ کی اس طور سے عزت کرتے ہیں، لیکن اگر امریکہ ہمارے معاملات میں مداخلت کرے اور ان کا کوئی نمائندہ کھڑے ہو کر پاکستان کے اندرونی معاملات، پاکستانی کے عدالتی نظام، پاکستان کے اندر انصاف کے نظام پر، ہمارے اپنے قوانین ہیں۔یہ جس طرح سے یکطرفہ بات کر رہے ہیں، یہ تو ایک جماعت کا ٹرول لگ رہا ہے۔ انہوں نے اگر شیری رحمٰن پر کوئی بات کی ہے تو ایک ٹرول کی طرح کی ہے۔ اگر امریکہ اپنے ان ٹرولز کو نہیں روکے گا تو یقیناً ایک اتحادی کے طور پر ہمیں دکھ ہوگا۔‘
پیپلز پارٹی رہنما نے کہا کہ ’بہت سے ممالک میں تھینک ٹینک ہوتے ہیں، واشنگٹن ڈی سی میں بھی ایک ہے۔ وہاں پاکستانی سیاست دانوں اور پاکستان سے مختلف لوگوں کو بلایا جاتا ہے، تو کیا ہم اب اس پر اعتراض کرنا شروع کر دیں۔’ہم تو کسی کو باہر سے نہیں بلاتے، ہمارے تھینک ٹینکس میں بہترین دماغ ہماری پالیسیوں پر مل بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ جناح انسٹی ٹیوٹ نے بھی یہ کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کے مسائل پر پاکستانیوں نے بیٹھ کر، مل کر، سر جوڑ کر، اپنی صلاحیت، اپنے تجربے اور قابلیت کی بنا پر اس پر تجاویز دیں ہے، کام کیا ہے۔یہ معیوب اور عجیب بات کیوں ہے ایک شخص کے لیے جس کا تعلق امریکہ سے ہے یا آنے والی امریکی انتظامیہ سے، وہ جا کر امریکی تھینک ٹینکس کو دیکھے۔ امریکہ میں بے شمار تھینک ٹینکس ہیں۔،
’اگر کوئی ان تعلقات کو سیاسی طور پر استعمال کرے تو وہ غلط اور اگر کوئی ان تعلقات کو مداخلت کے لیے استعمال کرے تو وہ بھی غلط ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی موجودہ یا جو بھی آنے والی حکومت ہے، اسے اپنے ایسے نمائندوں کے بیانات کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا: ’مجھے تو یہ رچرڈ گرینل کی جو بھی ٹویٹس ہیں وہ ٹرول قسم کی لگ رہی ہیں۔ کیوں کہ ہم نے تو یہاں ٹرولز دیکھے ہیں، جو سوشل میڈیا کے مختلف فورمز پر صرف ایک غلط بیانیہ تیار کر کے اس کی تشہیر کرتے ہیں، جھوٹی خبریں دیتے ہیں۔ آپ کے پاس پی ٹی آئی کے ٹرولز کی طرف سے بے شمار جھوٹی خبریں ہوں گی اور ذی شعور لوگوں نے انہیں بار بار بے نقاب بھی کیا ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر امریکہ سے بندہ پکڑ لیا ہے کہ وہ پاکستان پر بات کرے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ پی ٹی آئی ان کاموں پر متواتر لگی ہوئی ہے۔ وہ لابیز کو پیسے دے رہی ہے۔‘
انہوں نے رچرڈ گرینل کی عمران خان کی رہائی کے حق میں کی گئی ٹویٹس کے حوالے سے کہا: ’اب اگر کوئی باہر پاکستان کے لیے لابنگ کرے تو وہ بری ہے، لیکن اگر آپ کے ایشو پر کوئی لابی کر رہا ہے، عمران خان امریکن کانگریس میں بیٹھے لوگوں کو پیسے دے رہا ہے۔ عمران خان جو پیسہ اپنے ہسپتال والے اچھے کاموں کے لیے جمع کر رہا تھا وہ اس کو سیاست میں لے آیا۔ اب وہی پیسہ لابیز کو دے کر اپنی رہائی کی بات کر رہا ہے۔ اگر آپ کو رہائی چاہیے تو وہ آپ کو پاکستان کے نظام انصاف سے ملے گی۔ آپ کو پاکستان کے قانون سے ملے گی۔ آپ کو امریکہ کے دباؤ سے نہیں ملے گی، کیوں کہ امریکہ کا دباؤ پاکستان کے معاملات میں مداخلت ہے۔‘ ’کوئی بھی محب وطن پاکستانی، کوئی بھی ایسا پاکستانی جو اس ملک کی عزت، وقار اور سالمیت پر یقین رکھتا ہے، وہ ہرگز نہیں چاہتا کہ امریکہ پاکستان کے معاملات میں آئے۔ امریکہ بھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان کبھی ان کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کرے۔انہوں نے پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کے ایک نعرے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’جب یہ کہتے تھے کہ ہم غلام نہیں ہیں، تو اب کیسے غلامی قبول کر رہے ہیں۔‘
شازیہ مری نے پاکستان میں انٹرنیٹ کے حوالے سے درپیش مسائل پر بھی گفتگو کی اور بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو سمجھتے ہیں کہ جدید دور میں انٹرنیٹ نہ صرف نوجوانوں کے لیے بلکہ ہر فرد کی ضرورت بن گیا ہے، اس لیے انٹرنیٹ تک رسائی کے حق کو قانونی شکل دی جائے۔بلاول بھٹو سمجھتے ہیں کہ انٹرنیٹ ایک بنیادی آئینی حق ہے اور اس حق کو قانونی شکل دینا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں وہ نوجوانوں سے تجاویز لے رہے ہیں اور جلد اس حق کو قانونی شکل دینے پر کام شروع کریں گے۔‘