حسن خالد: ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے " دنیائے اردو" کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کا 222 واں یوم پیدائش آج منایا جا رہا ہے، ان کے لازوال اشعار اور خطوط کو آج بھی اردو ادب میں خاص درجہ حاصل ہے۔
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب 27 دسمبر 1797 کو کالا محل آگرہ میں پیدا ہوئے، ہندوستان کے سیاسی حالات اور مغل دور حکومت کے انحطاط و زوال کے ادوار کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے غالب نے ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے اور اس کے جواب میں ہندوستان میں 1857ء کی جنگ آزادی جیسے اہم واقعات کا مشاہدہ بھی کیا۔
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
غالب کے اشعار اپنی رعونت، موسیقیت اور فلسفے کے ساتھ ساتھ عام حالات سے ہٹ کر سوچنے کے سبب انہیں آبروئے اردو بناتے ہیں۔ غالب کے کلام کی ایک خاص بات یہ ہے ان کی شاعری میں انسانی معاملات، نفسیات، فلسفہ، کائناتی اسلوب اور دیگر موضوعات ملتے ہیں، غالب کا یہی اسلوب اردو کے ہر دور کو " غالب کا دور" بناتا ہے۔
ہیں ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﺨﻦ ﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﮯ
ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻏﺎﻟﺐ ﮐﺎ ﮨﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺑﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ
ان کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کاا صل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اوراشعار میں زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کی گہرائی نے غالب کو عظیم بنایا۔
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
ایک عرصہ گزر جانے کے باوجود غالب کے مداح آج بھی ان کے اشعار کو ویسے ہی ازبر کیے دکھائی دیتے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں غالب شدید بیمار رہنے لگے اور پندرہ فروری 1869 کو خالق حقیقی سے جا ملے۔
آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک