(محمد موسیٰ ) وہ اپنے بھائیوں کے ہمراہ راستے سے گزر رہا تھا کہ اچانک ریلا آیا اور سارا راستہ اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ اب وہاں ایک چھوٹا سا ٹیلا رہ گیا تھا جس پر یہ پانچوں بھائی پھنس چکے تھا۔ انکے چاروں طرف پانی ہی پانی تھا۔ ٹھاٹھے مارتا، انکی بے بسی پہ شور مچاتا ہوا خوفناک پانی۔ دور ایک محفوظ مقام پر لوگ یہ سب دیکھ رہے تھے۔ وہ انہیں آوازیں دے رہے تھے تسلیاں دے رہے تھے مگر وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ درمیان میں پانی تھا اور بہاو اس قدر تیز کہ گاوں کے گاوں یہ پانی اپنی آغوش میں سمیٹ چکا تھا۔ وہ لوگ ان کیلئے افسوس کر سکتے تھے۔ انکی ویڈیوز بنا سکتے تھے۔
اگر وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے تو وہ تھی ان بھائیوں کی مدد۔ اور پھر چار سے پانچ گھنٹے گزرنے کے بعد جب ان بھائیوں کی دادرسی کو کوئی نہ پہنچ سکا تو آخر کار ایک اور سیلابی ریلا آیا اور انکو بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ میں سوچتا ہوں کہ وہ کیا منظر ہوگا جب ان بھائیوں کو اپنے چاروں اطراف موت نظر آ رہی ہوگی۔اتنے شور میں بھی وہ سناٹے میں آ گئے ہونگے۔ مر تو شائد وہ بہہ جانے سے پہلے ہی گئے ہونگے،_اور وہ تو خالی مٹی کا جسم ہی ہوگا جسے پانی نے اپنا کفن اوڑھا دیا۔
یہ حالات کسی ایک علاقے کے نہیں بلکہ رپورٹس کے مطابق عرضِ پاک کا 60 فیصد سے ذیادہ حصہ اس وقت سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ 50 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر سڑکوں پر، پہاڑوں پر اور ناجانے کہاں کہاں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ ہزاروں لوگ اس آفت کے نتیجے میں لقمہْ اجل بن چکے ہیں۔ ذرائع اس سیلاب کو 2005 کے زلزلے سے بڑی آفت بتا رہے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ اگر کھانے پینے کی اشیاء نا پہنچائی گئیں تو جو لوگ سیلاب سے بچ گئے ہیں وہ بھوک سے مرنا شروع ہوجائیں گے۔
اس کے برعکس ہمارے ہاں کیا زیر بحث رہا کہ شہباز گل کو زبردستی کھانا کھلا دیا گیا، شاہین آفریدی کرکٹ ٹیم سے باہر ہوگئے،اب کیا ہوگا؟ کراچی سے پسند کی شادی کرنے کیلئے آنے والی لڑکی کا کیا بنا؟ عمران خان نے آج تقریر میں سب کو اڑا کے رکھ دیا، شہباز حکومت نے یہ کر دیا وہ کردیا۔ میں جب یہ کالم لکھ رہا ہوں تو مجھے اپنی قوم کی بے حسی پہ رونا آ رہا ہے۔ اس قیامت خیز تباہی میں ہم کیسے کچھ اور سوچ سکتے ہیں۔ ٹویٹر پر بے سروپا ٹرینڈز بنتے رہے۔ فیسبک پر لیگی اور انصافی دست و گریباں نظر آئے۔ سوشل میڈیا پر اگر نہیں تھا تو ان علاقوں کا حال بیان کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
اللہ اللہ کرکے جب لوگوں کا دھیان اس طرف آیا تو ایک نئی جنگ شروع ہوچکی ہے۔ انصافی عمران خان کی سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کی ویڈیوز شئیر کرکے شہباز حکومت کو برا بھلا کہہ رہے ہیں جبکہ اس کے برعکس لیگی بھی شہباز شریف کی ویڈیوز شئیر کرکے خان صاحب کو کوس رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس سب میں سیلاب متاثرین کا درد کون محسوس کر رہا ہے؟ یہاں تو سیاست ہی چل رہی ہے۔ غریب مر رہا ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج سیاستدانوں سے ذیادہ انکے چاہنے والے سیاست کر رہے ہیں۔ ہم اپنے ملک کے لوگوں کے لئے وہ درد محسوس ہی نہیں کر پا رہے ہیں جو 65 کی جنگ میں تھا اور جو 2005 کے زلزلے کے وقت تھا۔منافع خور آج بھی سرگرم ہیں۔ ذرائع کے مطابق چار ہزار والا خیمہ پندرہ ہزار سے تجاوز کر گیا ہے اور دوسو روپے میں ملنے والی پلاسٹک شیٹ بارہ سو میں بھی دستیاب نہیں ہے۔
لوگ اپنی مدد آپ کے تحت مدد بھی کر رہے ہیں اور وہاں راشن بھی پہنچایا جا رہا ہے مگر نقصان اتنا ذیادہ ہے کہ یہ سب بہت کم ہے جو ہم کر رہے ہیں۔ ہر کسی کو اپنے حصے کی کوشش کرنی ہوگی اور پاکستان کو اس آفت سے نکالنا ہوگا۔ میری گزارش ہے تمام سیاستدانوں سے کہ خدارا سیاست چھوڑ کر اختلافات ایک سائڈ پہ رکھ کر ابھی ایک ساتھ مل کر متاثرین کی مدد کریں، پاکستانیوں کی مدد کریں، کیونکہ اگر پاکستانی رہیں گے تو ہی آپکی سیاست بھی چلتی رہے گی۔۔