خاورنعیم ہاشمی
شو بز کے ایک فری لانس جرنلسٹ نے ایک دن بتایا کہ اس نے اپنے جریدے میں اداکارہ لیلی کا انٹرویو چھاپا،وہ رسالے کی کاپیاں دینے اس کے گھر گیا تو اس کی خوب آؤ بھگت کی گئی، وہ واپسی کے لئے اٹھا تو لیلی نے پوچھا ۔ پیسے لو گے یا پورے کرو گے؟
میں سوچ میں پڑ گیا کہ نجانے کتنے لوگوں کے پیسے پورے کرانے پڑتے ہوں گے اسے روزانہ۔ پھر میری یادوں کا ایک دریچہ کھلا ، مجھے علینا یاد آگئی، وہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی تھی، اسکی ماں نےسارے انڈے ایک ہی بار نکال لینے کے لالچ میں اسے ذبح کرا دیا تھا۔
پندرہ سال پہلے اسے ایک سوشل پارٹی میں دیکھا، وہ وہاں ناچنے کے لئے بلوائی گئی تھی،اچھا ناچتی ہی نہیں بہت اچھی دکھتی بھی تھی، لوگوں نے بتایا کہ اسے سرکار، دربار میں پذیرائی مل رہی ہے،لوگ اس کی سمندر کی طرح چڑھتی جوانی،اس کی اداؤں اور اس کی پازیب کی جھنکار کے دیوانے تھے، وہ مختار بیگم سے تربیت پانے والی مرحومہ رانی کی طرح مجسم رقص تھی،خمار بھری آنکھیں، کمان جیسے ابرو، گھنیرے بال، مسکراتا ہوا چاند سا چہرہ ، بہت ہی ملنسار اور سخی،نام تھا ،علینا، پرویز کلیم نے اسے اپنی فلم ، پہلا سجدہ، میں ہیروئن لے لیا،شوٹنگز کے دوران اسے شمیم آراء کی ،منڈا بگڑا جائے، سمیت دو چار فلمیں اور مل گئیں، پہلا سجدہ فلاپ ہوئی تو بھی امید بندھی رہی کہ شمیم آراء کی فلم ضرور کامیاب ہوگی،لیکن وہ بھی ڈبہ ہی نکلی، علینا کے ساتھ ایک قدرے جوان عورت رفعت اس کا سایہ بن کر چمٹی رہتی،علینا اسے باجی کہہ کر بلاتی لیکن لوگ کہتے تھے وہ علینا کی ماں ہے،کچھ لوگ کہتے تھے کہ علینا رفعت کی بہو ہے،مجلسیں سجانے والوں سے رفعت زیادہ بھاؤ تاؤ نہیں کیاکرتی تھی، کئی گاہک ایسے بھی تھے جو جاتے ہوئے چیک دے جاتے، جو کبھی کیش نہ ہوتے ،علینا اس عورت کے ساتھ سبزہ زار یا علامہ اقبال ٹاؤن میں رہتی تھی پھر رفعت نے ڈیفنس میں بھی بنگلہ خرید لیا، 2007 میں ایک دن خبر ملی کہ علینا مر گئی ہے، اس کے جنازے اور اسے دفنانے کا کوئی گواہ نہ تھا، رفعت سب سےکہہ رہی تھی کہ وہ اچانک بیمار ہوئی، اسے شوکت خانم اسپتال لیجایا گیا جہاں وہ مر گئی،علینا کے مرنے کی کہانی ڈیفنس والی کوٹھی سے نہیں اس کے پہلے والےچھوٹے سے گھر سے نکلی تھی، لوگ علینا کے پرسے کے لئے وہیں جا رہے تھے، جتنے منہ اتنی باتیں، کوئی کہتا تھا، زہر کھا لیا ہوگا، کسی کو اس کے قتل کا تو کسی کو مہلک ناقابل علاج بیماری کا شبہ تھا، دردانہ رحمان پھوڑی پر بیٹھی سوال اٹھا رہی تھی کہ لوگوں کو اس کے مرنے کی خبر کیوں نہ دی گئی؟ جنازے کے بغیر اسے کیوں دفنا دیا گیا؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں مل رہا تھا، پھر شوبز کی کئی عورتیں سنگیتا کی قیادت میں پرچہ کٹوانے تھانے پہنچ گئیں، بہت شور شرابہ کیا مگر پرچہ نہ کٹا، پولیس کو مری ہوئی علینا کے مقابلے میں زندہ رفعت زیادہ عزیز تھی۔جن لوگوں نے علینا کی موت کےحوالے سے انوسٹی گیشن کی، ان کا کہناتھا کہ علینا کو کسی دوسرے نام سے اس وقت شوکت خانم اسپتال لایا گیا جب وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی تھی، اس کا سب کچھ ختم ہو گیا تھا، وہ ایک زندہ لاش تھی، علینا کی بیماری سب سے چھپائی گئی تھی تو مری ہوئی کا علینا کا چہرہ کسی کو کیسے دکھایا جاتا؟ مرتی ہوئی علینا کو اس کی کمائی سے بننے والے ڈیفنس کے بنگلے سے بھی دور کر دیا گیا تھا تاکہ اس کی موت کی نحوست سے پاک رہ سکے،اس کی لاش رات کی تاریکی میں دو آدمی قبرستان لے گئے تھے، علینا کی موت کو ابھی چار ہفتے بھی نہیں گزرے تھے کہ رفعت نے اپنے گاہکوں کو نئی ڈانسر کے آجانے کی اطلاع دینا شروع کردی۔