سورج چاند ستارے ، ہوا پانی اللہ پاک کے ایسے مطاہر ہیں جو اُس نے انسان کے لیے مسخر کردئیے یوں تو انسان کو پوری کائنات کے لیے تمام جہانوں کی تمام مخلوقات میں اافضل بنایا لیکن ہم انسانوں نے جو جو مظاہر قدرت ہمارے بس مین آئے اس کی تباہی میں کبھی کوئی کسر نا چھوڑی ہوا کو آلودہ کیا اور پانی کی خرید و فروخت کے ساتھ ساتھ آلودہ بھی کیا اب ان میں سے ایک چیز بچی اور وہ تھی دھوپ جو آج بھی انسان کو خالص شکل میں دستیاب ہے ۔
اس خالص مظہر قدرت کے باعث انسان کو زمین پر سب کچھ ملا ، روشنی ، بقائے نسل ،گرمی ، سبزا ، پانی ، خوراک اور اب انسان نے اس دھوپ کو مزید کارآمد بنانے کا سوچا تو اُس نے چمکنے والے اس سنہری نور سے بجلی بھی بنا لی جی ہاں سولر انرجی جو دنیا میں سستی ترین انرجی کا درجہ حاصل ہے حسول اتنا آسان کہ جیسے گھر میں سبزی گوشت کا پکانا سیمی کنڈکٹرز سے بنی سولر پلیٹس کو لاکر چھت پر لگایا اور بجلی بننے کے عمل کا آغاز ہوگیا اللہ اللہ خیر صلہ ۔
اب جب یہ بجلی بننے کا عمل شروع ہوا تو ہماری حکومت نے بھی اس کی پذئرائی کی۔ ظاہر ہے بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات مل رہی تھی حکومت سولر پلیٹس لگانے والوں سے سستے داموں بجلی خرید کر اسے مہنگے داموں بیچ رہی تھی ، عوام بھی خوش حکمران بھی خوش لیکن یہاں ایک اور مسلہ پیدا ہوا کہ سابق ادوار میں جن غیر ملکی آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کیے گئے تھے اُس کے مطابق وہ بجلی بنائیں یا نا بنائیں حکومت کو انہین ادائیگیاں کیپسٹی سرچارج کے تحت ادا کرنا تھیں ڈیم ہم نے بنائے نہیں تھے اس لیے بڑھتی آبادی کو انرجی فراہم کرنے کے لیے یہ معاہدے کیے تھے لیکن کرنا اللہ پاک یہ ہوا کہ دنیا میں سائنس و ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنے والے ممالک سے سیمی کندکٹر کو ایجاد کیا اور سستی بجلی کے حصول کو ممکن بنایا یہ ٹیکنالوجی مہنگی ہونے کے باعث ہمارے جیسے ملک کے عام عوام کے لیے سستی نہیں تھی اس لیے حکومت نے سولر لگانے والوں کی حوصلہ افزائی کی دنیا بھر میں جرمنی ، امریکہ اور کینڈا کے بعد چائنہ جب اس مارکیٹ مین آیا تو وہی ہوا جو چینی کمپنیاں دنیا کی کسی بھی ٹکنالوجی کے ساتھ کرتی ہیں مارکیت گرتے گرتے یہاں تک گر گئی کہ آج وہ سولر پلیٹ جو ایک لاکھ میں بھی دستیاب نہ تھی 20 / 25 ہزار روپے میں دستیاب ہے وہ بھی گارنٹی کے ساتھ ۔
اس گارنٹی نے اب حکومت کی گھنٹی بجا دی ہے بجلی فراہم کرنے والے پاور ڈویژن نے سولر کو خود کے لیے دشمن تصور کرتے ہوئے اس پر ٹیکس لگانے کی " شدنی " چھوڑی مقصد ٹیکس لگانا نہیں تھا صرف عوام کا ٹمپریچر چیک کرنا تھا جو ان گرمیوں میں بلا واپڈا اور ڈسٹریبیوشن کمپنیز کے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کا تصور کیے بیٹھے تھے ، اس خبر کا منظر عام پر آنا تھا کہ بلا تمیز رنگ ونسل ، ذات برادری ، سیاسی وابستگی اور مذہبی تفکر کے سب نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا عوام اس پر سراپا احتجاج نظر آئی ، لوگوں کا یہ ردعمل دیکھ حکومت نے پاور دویژن کو اس خبر کی تردید کرنے کا کہا جس نے جو تردید جاری کی وہ کچھ یوں ہے
" پاورڈویژن نےسولر پاور پرفکسڈ ٹیکس لگانےکی خبروں کی تردید کرتی ہے سولرپاور پرفکسڈ ٹیکس لگانے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی یا پاورڈویژن نےحکومت کو ایسی کوئی سمری نہیں بھیجی صاحبِ ثروت لوگ بے تحاشہ سولر پینل لگا رہے ہیں،
گھریلو،صنعتی صارفین سمیت حکومت کو بھی سبسڈی کی شکل میں 1 روپے 90 پیسے کا بوجھ برادشت کر نا پڑ رہا ہے
اس کے نتیجے میں تقریباً ڈھائی سے تین کروڑ غریب صارفین متاثر ہو رہے ہیں یہ 1.90 روپےغریبوں کی جیب سے نکل کر متوسط اورامیر طبقے کے جیبوں میں جا رہے ہیں یہی سلسلہ جاری رہا تو توغریب صارفین کے بلز کم از کم 3.35 روپےفی یونٹ کامزید اضافہ ہو جائے گا2017 کی نیٹ میٹرینگ پالسی کا مقصد سسٹم میں متبادل توانائی کو فروغ دینا تھا 2017 کے بعد اب سولر ائزیشن میں بہت ذیادہ اضافہ ہوا ہے ، اب ایک نئے نرخ کی ضرورت ہے اب ایک نئے نرخ دینے کی ضرورت ہے،ہم اس پورے نظام کو سٹڈی کر رہے ہیں ایسی تجاویز اور ترامیم پر غور کر رہے ہیں جن سے غریب کومزید بوجھ سے بچایا جاسکےڈیڑھ سے دو لاکھ نیٹ میٹرنگ والے صارفین کی سرمایہ کاری کو تحفظ دیں گے۔
یہ تردید نہیں اعتراف ہے کہ پاور ڈویژن حکومت سے عوام کا خون نچوڑنے کی اجازت مانگ رہا ہے وہ اُس ناکردہ گناہ کی سزا اُس بل کی صورت میں دینا چاہتا ہے جو عوام بجلی استعمال نا کر کے بھی ادا کریں گے اب کہا جارہا ہے کہ صرف 12 کے وی اے سے ذیادہ استعمال کرنے والوں پر یہ ٹیکس لگایا جائے گا یعنی ابتدا یہاں سے کی جائے گی جس کے بعد ایک کے وی اے والوں کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا ایسا شائد ہلاکو خان اور چنگیز کان کے دور میں بھی نہیں ہوا ہوگا ہاں ایک کہانی مین ضرور ایسا ہوا ہے جس میں بھیڑیا ، بکری کے بچے کو کھانے کے لیے کہتا ہے کہ تم پانی گندہ کر رہے ہو ، بکری کا بچہ کہتا ہے میں تو نیچے سے پانی پی رہا ہوں اور آپ ما بدولت اوپر سے لیکن بھیڑیا تو بچے کو کھانے کی نیت کرچکا ہے وہ تو کھائے گا ۔
اب کرنا کیا ہے اس بکری کے بچے کو زور زور سے چلانا ہے باقی بکریوں کو جمع کرنا ہے تاکہ بھیڑیا ڈر جائے اس نا انصافی کے خلاف سب اپنی اپنی آواز بلند کریں تو بات بنے لیکن جس جس معاشرے میں ناانصافی بڑھتی ہے وہاں بغاوت ہوجایا کرتی ہے حکمران یہ یاد رکھیں ۔