سٹی42: بنگلہ دیش، بلکہ پورا برصغیر پاک و ہند اور جنوب مشرقی ایشیا، اس وقت شدید گرمی کی لہروں کا شکار ہے۔ڈھاکا میں اوسطً زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔بنگلا دیش میں ہیٹ ویو نے گرمی کاریکارڈ توڑ دیا۔
درحقیقت، موسمیاتی اداروں کے ریکارڈز اور رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم پہلے ہی صنعتی دور کے آغاز کے وقت دنیا کے ٹمپریچر سے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے کو عبور کر چکے ہیں اور 10 سالوں کے اندر ہم صنعتی دور کے آغاز کے وقت دنیا کے عمومی ٹمپریچر سے 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے آگے گزر سکتے ہیں۔
یہ صورتحال دراصل پیرس معاہدے کے کلائمیٹ کے متعلق ہدف کے لیے کام کرنے میں دنیا کی مسلسل ناکامی کی نشاندہی ہے، جس کا مقصد "عالمی اوسط درجہ حرارت کو صنعتی زمانہ سے پہلے کی سطح سے 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے تک بلے جانا ہے" اور "درجہ حرارت کو صنعتی زمانہ کے آغاز کے ٹمپریچر سے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ اوپر تک محدود کرنا ہے۔
اس وقت پورے برصغیر میں متعدد مقامات پر 47 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا ہے،برصغیر کے بارشوں کی زد میں آئے ہوئے کچھ علاقوں کو چھوڑ کر زیادہ تر علاقے دن بھر 32 سے 38 سیلسئیس ٹمپریچر کی حد میں رہتے ہیں۔
بھارت میں اوڈیشہ اور مغربی بنگال میں سب سے زیادہ درجہ حرارت نوٹ کیا گیا، اوڈیشہ میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 45.2 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا اور مغربی بنگال میں 44.6 ڈگری سینٹی گریڈ کی شدید گرمی بھی ریکارڈ کی گئی۔
میانمار کے محکمہ موسمیات نے کل دارالحکومت نیپیداو کے شمال مغرب میں دریائے ایراوادی پر واقع قصبہ چوک میں چوٹی کا درجہ حرارت 47 ڈگری سینٹی گریڈ ہونے کا انکشاف کیا۔
تقابلی طور پر، کل بنگلہ دیش کو جاشور میں 42 ڈگری سینٹی گریڈ کی چوٹی کا سامنا کرنا پڑا اور ڈھاکہ کا درجہ حرارت 40.4 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ شدید گرمی کی وجہ سے بنگلہ دیش میں اس ہفتے تعلیمی ادارے اور مدارس بند رکھے گئے۔
لیکن جنوبی ایشیائی برصغیر ان مصائب میں تنہا نہیں ہے۔
یورپ میں ٹمپریچر ایک جیسی بلندیوں تک نہیں پہنچا ہے، لیکن ان کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے نتائج خشک سالی سے لے کر ضرورت سے زیادہ بارشوں تک مختلف موسمی آفات میں ظاہر ہوئے ہیں۔
ان واقعات نےبراعظم یورپ کی زراعت پر نمایاں اثر ڈالا ہے۔
برطانیہ میں کسانوں نے ضرورت سے زیادہ بارش سے ان کی فصلوں کو زمین میں گلنے سے ہونے والے نقصانات کی اطلاع دی ہے جبکہ فرانس اور اسپین خشک سالی اور گرمی کی لہروں کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ان کی فصلیں بھی کم ہو گئی ہیں۔
برطانیہ کو اس کے نتیجے میں خوراک کی کمی کا سامنا ہے، ان کی تازہ پیداوار کی درآمد بریگزٹ بیوروکریسی دونوں کے ذریعہ محدود ہے اور یہ سادہ سی حقیقت ہے کہ اب درآمد کرنے کے لیے بہت کچھ دستیاب ہی نہیں ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اب نمایاں ہے اور اس کے اثرات پوری دنیا میں اس مقام تک دیکھے جا سکتے ہیں کہ اب کوئی بھی اس کے وجود سے انکار نہیں کر سکتا۔
ہمیں دو دہائیوں پہلے اپنے طرز زندگی میں جس تیز رفتار تبدیلی کی ضرورت تھی وہ شاید اب رونما ہونا شروع ہو جائے۔ کیونکہ جن ممالک نے موسمیاتی تبدیلی کے جہنم میں سب کو دھکا دیا وہ بھی اب اس کے تباہ کن اثرات کو محسوس کرنے لگے ہیں۔ درحقیقت یہی ممالک ہیں جو اب بھی اس تبدیلی کو روکنے کے لئے اہم اقدامات کر کے کچھ بہتری لا سکتے ہیں۔
ہم میں سے باقی لوگوں کو اگلے سال اس سے بھی زیادہ گرم موسم کی تیاری کرنی ہوگی۔