شہنشاہ ہندوستان انجینئر بادشاہ کے نام سے منسوب شہاب الدین محمد شاہ جہاں اول جس نے سلطنت مغلیہ میں ایسی ایسی شاندار تعمیرات کرائیں جنہیں آج عجوبہ روزگار کہا جاتا ہے اُس کے دور فن تعمیرات کا سنہری دور تھا تاج محل ، لال قلعہ ،شاہ جہاں مسجد دہلی ، مسجد وزیر خان لاہور ، مقبرہ جہانگیر لاہور اسی دور کی چند مثالیں ہیں ، اور کہا جاتا ہے کہ اگر دور شاہ جہاں نکال دیا جائے تو مغل دور کے کھنڈر ہی بچیں گے.
1657 عیسوی میں یہ بادشاہ بیمار ہوا تو اُس نے اپنے بڑے بیٹے دارا شکوہ کو اپنا جانشین مقرر کردیا یوں وراثتی جنگ کا آغاز ہوا جس میں اس کے تیسرے بیٹے اورنگزیب عالمگیر نے فتح حاصل کی اپنے بھائیوں کو سزائے موت دی ،لیکن اسی دوران بادشاہ وقت شاہ جہاں صحت مند ہوگئے ، فوج اورنگزیب کے ساتھ تھی سو آس نے فوج کی مدد سے خود کو تحت نشین کرایا اور اپنے باپ شاہ جہاں کو آگرہ قلعہ میں تاج محل کے سامنے قید کردیا جہاں وہ اپنی مرحومہ بیگم ممتاز محل کے مدفن تاج محل کو دیکھتا اور روتا رہتا،ایک مرتبہ اورنگزیب اپنے قید والد سے ملنے آیا تو والد نے تنہائی کا شکوہ کرتے ہوئے قلعہ میں موجود بچوں کو قرآن پڑھانے کی اجازت طلب کی جس پر اورنگزیب عالمگیر نے جواب دیا " کیا شہنشاہ ہندوستان کی عادت حکمرانی ابھی باقی ہے " جملہ سخت اور چوٹ گہری تھی بیٹا باپ کو بچوں پر قرآن پاک پڑھنے کا بھی حکم چلاتا نہیں دیکھ سکتاتھا ، بادشاہ اس غم میں اتنا رویا کہ آنکھیں بجھ گئیں اور بادشاہ 1666 کو جہان فانی سے کوچ کرگیا ،یوں اس اندھے سابق بادشاہ کو اسکی چہیتی بیوی ممتاز محل کے پہلو میں دفن کردیا گیا۔
زمانہ بدلا دور بدلے دنیا بدلی نظام حکومت اور انداز حکومت بدلا لیکن اگر نہیں بدلا تو تحت شاہی کو حاصل کرنے کا انداز نہیں بدلا شہنشاہ شاہ جہاں کو ذہن میں لائیں اس کا دور اقتدار کتنا تھا 30 سال 1628 سے 1658 تک اور نواز شریف صاحب نے بھی اپنی جماعت کے تحت کم و بیش اقتدار کی اتنی ہی بہاریں دیکھیں ہیں یوں یہ کہہ لیں کہ تحریک انصاف تو یہی الزام لگاتی ہے کہ یہ خاندان 30 سال سے حکمران ہے ،نواز شریف بھی موٹر ویز جیسی تعمرات کے باعث مشہور ہیں جبھی تو ان کی بیٹی (مریم نواز )کہتی ہیں کہ نواز شریف کے کام نکال دیں تو ملک میں کھنڈر بچیں گے ، نواز شریف بھی جب تحت اقتدار سے اتارے گئے تو بیمار ہوئے جس کے بعد تحت نشینی کی جنگ کا آغاز ہوا ، نواز شریف اپنا سیاسی وارث اپنی بیٹی کو بنا چکے لیکن بزبان دشمناں (میں نہیں مانتا ) شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ (فوج) کی مدد سے تحت اسلام آباد پر جلوہ افروز ہوئے یوں اب نواز شریف ( بادشاہ )کے پاس کرنے کا کوئی کام نہیں ہے نئے حکمران یا شہنشاہ پاکستان وزیر اعظم جناب شہباز شریف اقدار کے سنگھاسن پر بھی ہیں اور پارٹی کی صدارت پر بھی براجمان ہیں پنجابی کہاوت کے تحت ( چوپڑیاں او وی دو دو ) جن کو پنجابی سمجھ نہیں آتی آن کے لیے اسے گھی سے بنی روٹی یعنی قیمتی روٹی وہ بھی ایک نہیں دو ، کہنے والے کہتے ہیں کہ پارٹی کے اندر موجود مصاحبانِ شہنشاہ (شہباز شریف ) کو مشورہ دیا کہ سابق بادشاہ کو اُن کے بنائے ہوئے محل جاتی عمرہ تک محدود کردیا جائے جہاں اُن کی پیاری بیگم بی بی کلثوم نواز صاحبہ (اللہ پاک جنت نصیب فرمائیں ) مدفن ہیں وہ زیارت لحد کیا کریں اور جیا کریں ۔
کہانی وہی بس کردار اور طریقہ کار کچھ بدل گئے اس لیے اس کہانی میں اگر کچھ اور بدل سکتا ہے تو وہ ہے اس کہانی کا انجام جی ہاں شائد اب بادشاہ نے خاموشی سے چپکے چپکے روتے رہنے والی سزا کے خلاف باہر نکلنے کا فیصلہ کیا ہے اس بادشاہ کو اب بھی ہارے ہوئے مگر پارٹی مضبوط دھروں میں سے ایک مضبوط مگر میں ہارے ہوئے گروپ کی حمایت بھی حاصل ہے یہ گروپ متحرک ہوچکا ہے اور پنجاب میں اس حوالے سے اجلاس بھی ہورہے ہیں ، کہ اس صوبے میں اس بادشاہ کی بیٹی کی حکومت ہے یہاں سے ہی نواز شریف کو ناصرف جدید قلعہ آگرہ کے بچوں بلکہ بڑوں کو بھی ماتحت کرنے کی مہم زور و شور سے جاری ہے ، نقارہ بجا دیا گیا ہے الیکشن 2024 میں ہارے ہوئے مسلم لیگی زعماء سابق امراء چہل گانی سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی قیادت میں منظم ہورہے ہیں کہیں خفیہ اور کہیں اوپن بات ہورہی ہے پہلے مرحلے میں مسلم لیگ ن کی صدارت کی آواز اٹھائی گئی ہے نواز شریف کو 2017 میں جس صدارت کے لیے نااہل قرار دیا گیا تھا اُس پر واپس لانے کی جدو دجہد شروع کی جاچکی ہے یہ پہلا مرحلہ ہے اگر یہ کامیاب ہوگیا اور مسلم لیگ ن کے اندر بھی اس پر مزاحمت نا کی گئی تو پوری حکومت صرف ایک میاں نواز شریف کے اشارئے ابرو کی مرہون منت ہوگی کوئی نوازشریف کے حکم بجا لانے میں تاخیر نہیں کرئے گا سب کو بشمول اسٹیبلشمنٹ کے علم ہے کہ ووٹ بنک نواز شریف کے نام کے ساتھ جڑا ہے،کسی اور کے ساتھ نہیں نواز شریف اپنی بیٹی کو تو جانشین بنا ہی چکے اب نواسے جنید صفدر کی تربیت کا بھی آغاز کرچکے ہیں نہیں یقین تو نجی دورہ چین میں شامل افراد کی فہرست دیکھ لیں بادشاہت بڑی بے رحم ہوا کرتی ہے انگریزی میں اس لیے ہی کہتے ہیں کہ “Kingship knows no kinship “ بادشاہ کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا اُس کے لیے بھائی اور اُس کے بچے شریکہ ہوا کرتے ہیں جن سے جان خلاصی کے بعد ہی بادشاہت حاصل کی جاسکتی ہے اور شائد اب کے تاریخ کا دھارا بدلنے کو ہے آگرہ کے قلعے میں بیٹھے بادشاہ نے تاریخ کو دہرانے کے لیے نہیں تاریخ بدلنے کے لیے طبل جنگ بجا دیا ہے۔