پولیس کے یونیفارم کا معاملہ کھٹائی میں پڑنے لگا

27 Apr, 2020 | 05:20 PM

Arslan Sheikh

( علی ساہی ) پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسران کی سستی، رواں سال بھی اولیوگرین یونیفارم کا معاملہ تاخیر کا شکار، مالی سال کے اختتام کو دو ماہ باقی لیکن متعلقہ برانچ کی جانب سے اڑھائی لاکھ سے زائد یونیفارمز کے لیے ری سیمپلنگ نہ کی جاسکی۔

پنجاب پولیس کے لیے ہر سال تمام یونٹس کی وردی اور اس سے ملحقہ دیگر اشیا کے لیے کروڑوں روپے کے فنڈز مختص کیے جاتے ہیں، جس میں سب سے بڑی خریداری پولیس کی وردی کی ہوتی ہے۔

تفصیلات کے مطابق اعلیٰ افسران کی عدم دلچسپی کی وجہ سے پنجاب پولیس کی یونیفارم رواں سال تاخیر کا شکار ہوگئی جبکہ رواں مالی کے ختم ہونے کو 2 ماہ رہ گئے ہیں۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو ایک بار پھر گزشتہ سال کی طرح فنڈز سرنڈر کرنا پڑیں گے۔

لاہور سمیت پنجاب پولیس کے لیے اڑھائی لاکھ کے قریب یونیفارم خریدے جانے ہیں، لیکن تا حال ری سیمپلنگ نہیں کی جاسکی۔ ڈیڑھ ماہ پہلے جمع کرائے گئے سیمپلز معیاری نہ ہونے کی وجہ سے مسترد کردیئے گئے تھے۔

لیب میں بھجوائے گئے سیمپلز کی رپورٹس آنے اور افسران کی ٹیبلوں پر فائلوں کی موومنٹ کی وجہ سے ایک سے ڈیڑھ ماہ لگ جاتا ہے، اس کے بعد فنانشل بڈہوگی اور کم ریٹ دینے والی کمپنی کو کنٹریکٹ دیا جائے گا۔

اگر افسران نے بروقت اقدامات نہ کیے اور توجہ نہ دی تو اس سال بھی گزشتہ سال کی طرح خریداری ممکن نہیں ہوگی جبکہ ملازمین کو خود ہی بازار سے کپڑا خرید کر یونیفارم بنوانا پڑے گی۔

یاد رہے سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے اپریل 2017 میں پنجاب پولیس کی خاکی پینٹ اور کالی شرٹ کو تبدیل کرکے اولیو گرین رنگ کا یونیفارم متعارف کروایا اور نشاط کمپنی سے ایک یونیفارم دو ہزار کے قریب خریدا گیا جبکہ مالی سال 18-2017 میں وردی کا کنٹریکٹ اٹھارہ سو میں دیا گیا۔

اولیوگرین یونیفارم کے متعارف ہونے کے بعد پولیس کے حلقوں میں شدید مخالفت کے بعد سروے کروایا گیا جس میں 90 فیصد اہلکاروں نے وردی بدلنے کے لیے ووٹ دیا لیکن اس کے بعد آنے والے چار آئی جیز نے کوئی اقدام نہ اٹھایا اور اولیوگرین یونیفارم ہی تیار کروائی۔

دوسری جانب شہریوں کا کہنا ہے کہ وردی تبدیل کرنے کی بجائے پولیس کا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ ہرسال کروڑوں روپے خرچ کرکے وردی بنوائی جاتی ہے لیکن پولیس کا عوام کے ساتھ رویہ جوں کا توں ہے۔  

مزیدخبریں