امریکہ فرانس اور 12 ممالک نے 21 روزہ اسرائیل حزب اللہ جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا

26 Sep, 2024 | 07:13 PM

Waseem Azmet

سٹی42: امریکہ، فرانس اور ان کے بعض ہم خیال ممالک  نے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان فوری طور پر 21 روزہ جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ غزہ میں جنگ بندی کی حمایت کا اظہار بھی کیا ہے۔

امریکہ اور فرانس نے وسیع تر مذاکرات کے لیے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 21 روزہ عارضی جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے، جیسا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، انتونیو گوٹیرس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ لبنان میں "جہنم ٹوٹ رہا ہے"۔امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور فرانس کے صدر میکرون کا جنگ بندی کے متعلق مشترکہ بیان اسرائیل ی فوج کے سربراہ کے لبنان مین زمینی مداخلت کرنے کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔ اسرائیل کی فوج کے سربراہ  نے کہا ہے کہ ملک تین روزہ شدید بمباری مہم کے بعد لبنان میں ممکنہ زمینی کارروائی کی تیاری کر رہا ہے۔

 صدر جو بائیڈن اور فرانسیسی ہم منصب ایمانوئل میکرون کی طرف سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے: "یہ  اسرائیل-لبنان سرحد پر ایک ایسے تصفیے کا وقت  ہے جو شہریوں کو اپنے گھروں کو لوٹنے کے لیے حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنائے۔ 7 اکتوبر سے فائرنگ کے تبادلے، اور خاص طور پر پچھلے دو ہفتوں کے دوران، ایک وسیع تر تنازعے اور عام شہریوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔"

امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور فرانس کے صدر میکرون نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر ملاقات کی، اس ملاقات کے بعد  فرانس امریکہ اور ان کے اتحادی ممالک کے مشترکہ بیان میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے "سفارت کاری کے کامیاب ہونے اور سرحد پار مزید کشیدگی سے بچنے کے لیے" عارضی جنگ بندی پر کام کیا ہے۔

انہوں نے اسرائیل اور لبنان پر زور دیا کہ وہ اس اقدام کی حمایت کریں، جس کی برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، یورپی یونین، جرمنی، اٹلی، جاپان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر نے بھی حمایت کی ہے۔

پس منظر کی بریفنگ میں حکام نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جنگ بندی کی تجویز کا اطلاق غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع پر نہیں ہوتا۔

امریکہ نے کہا کہ 21 دن کی جنگ بندی کی مدت کا انتخاب دونوں فریقوں کے درمیان ایک زیادہ جامع معاہدے پر بات چیت کے لیے جگہ فراہم کرنے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ دونوں اطراف کے رہائشیوں کو اسرائیل لبنان سرحد کے ساتھ ساتھ مزید تشدد یا کسی خوف کے بغیر اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دی جا سکے۔ 

12 رکنی بلاک کے بیان میں کہا گیا ہے: "لبنان اور اسرائیل کے درمیان 8 اکتوبر 2023 کے بعد کی صورتحال ناقابل برداشت ہے اور وسیع تر علاقائی کشیدگی کا ناقابل قبول خطرہ ہے۔ یہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے، نہ اسرائیل کے لوگوں کے اور نہ ہی لبنان کے لوگوں کے۔"

یہ اعلان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک گرما گرم اجلاس کے اختتام پر سامنے آیا، جس میں لبنان کے وزیر اعظم نے اسرائیل پر اپنے ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔ نجیب میقاتی نے کہا کہ لبنانی ہسپتال مغلوب ہیں اور مزید متاثرین کو قبول کرنے سے قاصر ہیں۔

اسرائیل کے اقوام متحدہ کے ایلچی نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ ان کا ملک فل سکیل جنگ نہیں چاہتا اور مشرق وسطیٰ میں پھیلنے والے عدم استحکام کے پیچھے ایران ہی "متحرک قوت" ہے۔

امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کے درمیان اس بات پر کشیدگی پائی جاتی ہے کہ آیا سلامتی کونسل میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا جائے۔ برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی نے فوری جنگ بندی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت دہانے سے پیچھے ہٹنے کا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ "مکمل جنگ اسرائیل یا لبنانی عوام کے مفاد میں نہیں ہے"۔

سفارتی حلقوں کی جانب سے بتایا جا رہا ہے کہ فرانس کی رابطہ کاری کے نتیجہ میں امریکہ فرانس اور متعدد ممالک نے اسرائیل حزب اللہ تنازعہ کے سفارتی تصفیے پر زور دینے والے بیان پر دستخط کیے۔

وائٹ ہاؤس سے جمعرات کے روز جاری کئے گئے اس بیان میں حزب اللہ کی جانب سے اپنی اتحادی حماس کے گزشتہ سال  اکتوبر  میں اسرائیل پر حملے کے فوراً  بعد شمالی اسرائیلی  آبادیوں اور فوجی چوکیوں پر حملے شروع کرنے کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان 8 اکتوبر 2023 سے حالات ناقابل برداشت ہیں اور یہ صورتحال وسیع تر علاقائی کشیدگی کے ناقابل قبول خطرہ کا سبب بن  رہی ہے۔

اقوام متحدہ میں اسرائیل کے ایلچی نے ابتدائی ردعمل میں اس بیان کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ اسرائیل سفارتی حل کو ترجیح دیتا ہے۔ تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ اگر معاہدہ ان شرائط پر پورا نہیں اترتا جس سے اسرائیلی باشندے محفوظ طریقے سے اپنے گھروں کو واپس جا سکیں گے تو  اسرائیل طاقت کے استعمال سے نہیں ہچکچائے گا ۔

مزیدخبریں