سپریم کورٹ سے دو استعفے،قاضی کا خط قیامت ڈھا گیا

تحریر؛ عامر رضا خان

26 Sep, 2024 | 05:17 PM

یہ خط ہے یا چارج شیٹ فیصلہ آپ خود کرلیں،مجھے تو آنے والے دو ایک ہفتے میں دو بڑے استعفے نظر آرہے ہیں،اس خط کا متن ہی ایسا ہے کہ میں لکھتے ہوئے کانپ رہا ہوں،قصہ کچھ یوں ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ججز کمیٹی میں شرکت نا کرنے والے دوسرے سینیئر ترین جج سید منصورعلی شاہ کے خط کا جواب بھی دے دیا ہے ، ساتھی ججز کی ان خطوط بازی سے تو ہمیں غالب کے خطوط یاد آگئے لیکن وہ محبت بھرے خط تھے اور یہ ذرا ذیادہ محبت بھرے خطوط ہیں،ذرائع کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی اپنے جوابی خط میں لکھتے ہیں:

 جسٹس یحییٰ آفریدی نے ججز کمیٹی میں شامل ہونے سے معذرت کی تھی،جسٹس یحیٰی آفریدی کی معذرت پرجسٹس امین الدین خان کو کمیٹی میں شامل کیا گیا، ،ترمیمی آرڈیننس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کسی بھی جج کو کمیٹی میں شامل کرسکتے ہیں ، سینیئرججز سے جسٹس منیب اختر کا رویہ بھی درست نہیں تھا، قانون کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جس جج کو کمیٹی میں شامل کرنا چاہیں کرسکتے ہیں ،ہمیشہ احتساب اور شفافیت کا داعی رہا ہوں،چیف جسٹس سے یہ نہیں پوچھا جاسکتا کہ کمیٹی کے تیسرے رکن کے طور پر کس کو نامزد کیا جائے،جسٹس منیب اختر نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی سخت مخالفت کی تھی،جسٹس منیب اختر ان دو ججز میں سے ایک تھے جنہوں نے زیرالتوا مقدمات کے باوجود گرمیوں کی پوری تعطیلات کیں ،جسٹس منیب اختر تعطیلات کے دوران عدالت کا کام کرنے کیلئے دستیاب نہیں تھے،تعطیلات پرہونے کے باوجود جسٹس منیب نے کمیٹی میٹنگز میں شرکت پر اصرار کیا جو سینیئرجج جسٹس یحیٰی پر ان کا عدم اعتماد ظاہر کرتا ہے،جسٹس منیب اختر نے درخواست گزاروں کے آئینی اورقانونی حق کے خلاف آئینی مقدمات سننے سے انکار کیا،سپریم کورٹ کی روایت کے برعکس سینیئرججز (ایڈہاک ججز)  کا احترام نہ کیا گیا،ایڈہاک ججز کوشریعت ایپلٹ بنچ کے مقدمات بھی سننے نہیں دیئے گئے،جسٹس منیب اختر نے کمیٹی کے ایک معزز رکن سے غیرشائستہ اور نامناسب رویہ اختیار کیا،اس اجلاس میں تمام چیف جسٹسز شامل تھے اور سینیئر ترین جج بھی حصہ تھے،جسٹس منیب اخترمحض عبوری حکم جاری کرکے گیارہ بجے تک کام کرتے ہیں،جسٹس منیب اختر کے ساتھی ججز نے ان کے اس روئیے کی شکایت کی،آڈیو لیکس کیس پر حکم امتناع جاری کر کے کیس مقررہی نہیں کرنے دیا گیا۔

 اب آپ ہی بتائیں مہربان کہ یہ سب کچھ کیا ہے؟ کیا یہ چیف جسٹس کا اپنے جج پرعدم اعتماد نہیں ہے؟ کیا اب جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر سپریم کورٹ میں رہیں گے؟ سوال پہ سوالات ہیں جو اذہان میں اٹھ رہے ہیں جواب الجواب خطوط میں اب خط آئے گا یا استعفیٰ ہم بھی منتظر ہیں ۔

 الیکشن کمیشن نے 8 رکنی سپریم کورٹ کے ججز کے فیصلے کو لپیٹنے میں چند دن لیے لیکن پھر اس لپٹے ہوئے 70 صفحات کے وضاحتی فیصلے کو واپس سپریم کورٹ میں یہ کہتے ہوئے دے دیا کہ " بہت دیر کی مہرباں آتے آتے " یہ الفاظ تو نہیں تھے لیکن واپس بھجوائے گئے خط کا متن کچھ ایسا ہی تھا،اس طرح بانی پی ٹی آئی جو ارمان لگائے اڈیالہ میں بیٹھے تھے کہ اب مخصوص نشستیں واپس ملیں گی وہ سلمیٰ آغا کی آوازمیں یہ گاتے ہوئے پائے گئے" دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے،ہم تو تنہا تھے تنہا رہ گئے" شاید اُن کا (اُن کا ) ہمارے ہاں بیویاں شوہروں کو بھی کہتی ہیں نام نہیں لیتیں جیسے کپتان کبھی تھرڈ امپائر اور کبھی نیوٹرل وغیرہ کہتے ہیں نام نہیں لیتے ، شاید اُن کا آخری ہو یہ ستم ہر ستم یہ سوچ کر ہم رہ گئے ، دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے ۔

 الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے وضاحتی بیان کے جواب میں جو خط لکھا ہے اس خبر کے مطابق تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا معاملہ ہے جس پرالیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے وضاحت کیلئے ایک بار پھر رجوع کر لیا،الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو لکھا ہے کہ  ترمیمی ایکٹ آنے کے بعد عدالتی فیصلے پر رہنمائی کی جائے،12 جولائی کے مختصر فیصلے پر جب وضاحت مانگی گئی تب نیا ایکٹ موجود نہیں تھا،پارلیمنٹ نے الیکشن ترمیمی ایکٹ کی صورت میں اب قانون بنا دیا ہے ،بتایا جائے پارلیمنٹ کے قانون پر عملدرآمد کریں یا سپریم کورٹ کے فیصلے پر لکھی گئی استدعا ۔

 اب بتائیں کیا ہوگا اس وضاحت کی دوبارہ وضاحت کی جائے گی لیکن اس سے قبل کہ یہ وضاحت آئے قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ 30 ستمبر سے مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن ایکٹ میں ترمیم پرسماعت کا آغاز کرچکا ہوگا ،یعنی تحریک انصاف کے لیے "ہنوز دلی دور است" والا معاملہ ہے ،الیکشن کمیشن کو وضاحت جس میں بار بار سابق محبوب کی جماعت پی ٹی آئی کا اتنی دفعہ نام لیا گیا تھا کہ اب سکندر سلطان راجہ مقرر ارشاد مقرر ارشاد والی کیفیت میں ہیں ، ظاہر ہے وضاحت کی وضاحت کے لیے ایک بار پھر جسٹس منصور علی  شاہ کو ساتھی ججز کے ساتھ مشاورت کرنا پڑے گی لیکن کس بات کی مشاورت ؟ سوال یہ ہے کہ پارلیمانی نظام حکومت میں تو کوئی بھی پارلیمان سے طاقتور ہونہیں سکتا اور یہ معاملہ آئین کے بنیادی تقاضوں جیسا نہیں  جنہیں چھیڑا نہیں جاسکتا میں، تو کیسے آئینی ترمیم کو نظر انداز کیا جاسکے گا ؟ کیا اس کے لیے کوئی ایسا فیصلہ دیا جائے گا جو آئین کے منافی ہو یا تحریری آئین کے اوپر کوئی اور آئین بنایا جائے گا موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اکتوبر 2023 کو پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف دائر درخواستوں میں فل کورٹ سماعت کے بعد 10 کے بدلے 5 ججز کے فیصلے میں اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ پارلیمنٹ ہی قانون سازی کی اصل حقدار ہے ، اس فیصلے سے گو چیف جسٹس کے اختیارات میں کمی آئی لیکن پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا گیا،اب جب یہ دوبارہ وضاحت مانگی گئی ہے تو اس بالا دستی کے قانون کو کیسے چیلنج کیا جائے گا جس کے حق میں 10 ججز فیصلہ دے چکے ہیں ، وضاحت کرتے ہوئے تو 8 جج ہوں گے اور بالا دستی والا فیصلہ 10 ججز کا ہے معاملہ دلچسپ مرحلے میں ہے،دیکھیں 10 جیتتے ہیں یا 8 ۔

مزیدخبریں