(ویب ڈیسک)وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل اسرائیل کو اس کے جرائم پر جوابدہ ٹھہرائے، بیروت پر کی گئی بمباری انتہائی قابل مذمت ہے، وقت آگیا ہے کہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی پر اور اسرائیل کے ساتھ تجارت پر پابندیاں عائد کی جائیں۔
شہباز شریف نے اعلیٰ سطح کے مباحثے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ’قیادت برائے امن‘ پر مباحثے کے لیے سلامتی کونسل کا یہ اجلاس منعقد کرنے پر سلووینیا کو مبارکباد پیش کرتا ہے،مشرق وسطیٰ، یورپ اور دیگر خطوں میں پھیلتی جنگیں، بڑی طاقتوں کے مابین بڑھتی کشیدگی اور بڑھتی ہوئی غربت عالمی نظام کی بنیادوں کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ گزشتہ اتوار کو ہم نے مستقبل کے معاہدے کی منظوری دی، ہمیں اپنے وعدوں کو لازمی پورا کرنا ہوگا، وگرنہ مستقبل تاریک اور پُرخطر ہوگا، سب سے پہلے ہمیں لازماً اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی سے روکنا ہوگا، اسی طرح اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ کے خطے تک تنازع کو بڑھانے سے باز رکھنا ہوگا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ اسرائیل کی قیادت کو فلسطینی عوام کے خلاف اس کے جرائم کے لیے قابل گرفت ٹھہرایا جائے،سلامتی کونسل کو یوکرین میں جنگ بندی اور مسئلے کے پُرامین حل کے لیے غیرجانبدانہ منصوبہ تیار کرنا چاہیے اور اس جنگ کے جاری رہنے یا پھیلاؤ کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے،سلامتی کونسل جموں و کشمیر کے بگڑتے ہوئے تنازع کو مزید نظرانداز نہیں کرسکتی، یہ مسئلہ عالمی امن و سلامتی کے لیے ایک دائمی اور بدترین خطرے کا باعث ہے، مزید کہا کہ کونسل کو بڑے پیمانے پر کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی روکنے کا تقاضا کرنا چاہیے۔
شہباز شریف نے کہا کہ اقوام متحدہ کو اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کروانا چاہیے، جو وادی کشمیر میں عوام کو حق استصواب رائے دینے کی متقاضی ہیں،انہوں نے ہمسایہ ملک کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کونسل کو افغانستان سے ازسرنو سر اٹھاتے دہشت گردی کے خطرے کا مؤثر سدِباب کرنے پر بات کرنی چاہیے، خاص طور پر داعش، آئی ایس کے اور فتنہ الخوارج کے خطرے کا تدارک کرنا چاہیے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل کو دہشت گردی کو شکست دینے اور بیرونی مداخلت روکنے کے لیے افریقی ممالک اور افریقی یوینین کی مؤثر مدد کرنی چاہیے، اقوامِ متحدہ کا امن مشن زیادہ مؤثر اور مضبوط بنایا جانا چاہیے، ایشیا پیسیفک خطے میں بڑھتے ہوئے تناؤ کو کم کرنے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں، ریاستوں کے مابین صحتمدانہ مقابلہ ایک اچھا اور توانا رجحان ہے، تاہم اسے ایک بُرے تصادم کی شکل اختیار نہیں کرنی چاہیے۔