قانون پرست ریچھ کی شاندار رخصتی؛ سی جے قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں پر وقار ریفرنس کی کچھ اور تفصیل

26 Oct, 2024 | 01:16 AM

Waseem Azmet

سٹی42:  جمعے کی صبح جب پاکستان کے 29ویں-  پبلک میں سب سے زیادہ ڈسکس کئے جانے والے  چیف جسٹس,  عزت مآب قاضی فائز عیسی کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر ہونے والے فل کورٹ ریفرنس کے آغاز سے پہلے کورٹ روم نمبر ون میں ججوں کے لیے صرف 16 نشستیں لگائی گئیں تو یہ بات تو واضح ہو گئی تھی کہ اس تقریب میں صرف خوشگوار لمحات ہی دیکھنے میں آئیں گے کیونکہ بدمزگی کا سبب بننے کا پوٹینشل رکھنے والے چیف جسٹس عیسیٰ کے ساتھ  خراب  پروفیشنل تعلقات رکھنے والے بعض ججوں نے فل کورٹ کی روایتی تقریب میں نہ جانے کا عندیہ دے دیا تھا۔ 

تقریب کے آغاز میں اٹارنی جنرل آف پاکستان اور وکلا تنظیموں کے نمائندے جسٹس فائز عیسیٰ کی قانونی معاملات پر گرفت اور ان کے دور میں پیش کیے گئے مقدمات پر بات کرتے نظر آئے مگر جب مائیک نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے سامنے آیا تو ماحول کچھ تبدیل ہوا۔
آنے والے چیف جسٹس نے کہا کہ وہ اپنے پیشرو کو الوداع کہنے کے بارے میں "ملے ملے جذبات" رکھتے ہیں کیونکہ وہ "یقینی طور پر آپ کے مزاح اور اچانک پن کو یاد کریں گے" لیکن یہ بھی خوشی ہے کہ وہ اپنے آنے والے وقت سے لطف اندوز ہونے کے لئے اچھی صحت کے ساتھ جا رہے ہیں۔

چیف جسٹس یحیی آفریدی نے دلچسپ پیرائیہ میں حاضرین کو بتایا کہ کہ جسٹس عیسیٰ ’ایک بہترین اور خیال رکھنے والے شخص‘ ہیں لیکن شاید کچھ لوگوں کو یہ بات جاننا عجیب لگ سکتا ہے کہ ویسے تو چیف جسٹس بڑے نرم دل ہیں لیکن جب وہ غصے میں آ جائیں تو ان کا سامنا کرنا آسان نہیں۔  ’اگر آپ جسٹس فائز عیسیٰ سے مسکراتے ہوئے سلام دعا کریں اور انکساری دکھائیں تو وہ آپ سے اتنی نرم دلی اور خلوص سے پیش آئیں گے کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔‘
یہ بتانے کے بعد جسٹس یحیٰ نے کہا  کہ اگر انھیں غصہ دلایا جائے تو پھر ان کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوتا۔

"۔۔۔ تو جہنم میں بھی جگہ نہیں ملے گی"
جسٹس یحییٰ نے خشک باتیں کرنے کے  شائق قانون دانوں کی محفل کا  لائٹر موڈ بنانے کے بعد اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے  قاضی فائز عیسی کو ریچھ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ ’لیکن اگر آپ نے کسی بھی طریقے سے انھیں اشتعال دلانے کی کوشش کی یا ریچھ کو چھیڑنے کی کوشش کی تو آپ کو جہنم میں بھی جگہ نہیں ملے گی اور صرف اللہ ہی آپ کو بچا سکے گا۔‘
جسٹس آفریدی اس پر بھی رکے نہیں مزید آگے بڑھتے ہوئے بتایا کہ خود وہ بھی کئی بار اس صورتحال کا سامنا کر چکے ہیں۔ انہوں نے مزاح بھرے انداز  کا سہارا لیتے ہوئے کہا، ’میں آپ کو بتا دوں کہ میں نے اس بیئر  کے شدید غصے کا کئی بار سامنا کیا ہے اور یہ تجربہ خوشگوار نہیں تھا۔‘

 اپنی الوداعی گفتگو میں  عزت مآب سی جے  فائز عیسیٰ نے جسٹس آفریدی کی لائٹ گفتگو کو انڈورس کیا اور بات کو آگے بڑھاتے ہوئے سپریم کورٹ کی  رجسٹرار   جزیلہ اسلم کے بارے میں کہا ’انھوں نے شاید میرا پیار اور "ریچھ " دونوں پہلوؤں کو  دیکھا ہے۔‘

جسٹس آفریدی نے آؤٹ گوئنگ سی جے  عزت مآب فائز عیسیٰ کے  سرکاری طور پر اپنے اعزاز میں لنچ لینے سے انکار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب میں نے  قاضی فائز عیسی کو  لنچ  کی دعوت دی تو چیف جسٹس نے  (یحییٰ آفریدی) کو اس کا خرچ خود برداشت کرنے کو کہا۔
جسٹس آفریدی نے بتایا کہ انھوں نے چیف جسٹس سے کہا کہ وہ اتنا بڑا خرچ اکیلے برداشت نہیں کرسکتے۔ اس پر وہ مسکرائے۔۔۔ جس کے بعد یحییٰ آفریدی نے دیگر ججز سے کہا کہ وہ بھی اس کام میں اپنا حصہ ڈالیں۔

یحییٰ آفریدی کے بعد جب مائیک آؤٹ گوئنگ سی جے، محفل کے مرکزِ نگاہ  قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے آیا تو جہاں انھوں نے باقی مقررین کے برعکس اردو زبان میں گفتگو  کرنے پر اصرار کیا۔

سی جے عیسیٰ نے گہری چوٹ کرتے ہوئے ابتدا کی اور کہا،  وکلا مجھے سمجھنے میں کامیاب ہو گئے لیکن وہ ابھی تک جسٹس یحییٰ آفریدی کو نہیں سمجھ سکے۔عزت مآب سی جے فائز عیسیٰ نے ان تمام افراد کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے ان کے  چیف جسٹس کی حیثیت سے کام کے دورانیہ میں ان کے ساتھ کام کیا۔ انہوں نے خوبصورت پیرائیہ میں بلند اخلاق کو بروئے کار لاتے ہوئے شائستہ لہجہ میں کہا، " میں نہ صرف اس تقریب میں شریک تمام افراد کے شکرگزار ہیں بلکہ  ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں  جنھوں نے اس فل کورٹ ریفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔"


تقریب میں چیف جسٹس کی اہلیہ سرینا عیسیٰ جو ان کی دوست بھی ہیں اور ان کی مشیر بھی، اور خاندان کے دیگر افراد  بھی شریک تھے۔ آؤٹ گوئنگ  چیف جسٹس نے لائٹر موڈ برقرار رکھتے ہوئے  کہا، شکر ہے کہ میری اہلیہ آج کمرۂ عدالت میں موجود ہیں ورنہ وہ کبھی یقین نہ کرتیں کہ ان کے شوہر کے بارے میں ایسے تعریفی کلمات کہے گئے ہیں۔

Caption چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جب گزشتہ سال  حلف لیا تو سرینا عیسیٰ ان کے ساتھ کھڑی تھیں، انہیں اس سے کچھ عرصہ پہلے اپنے شوہر کو انتقام کا نشانہ بنانے کی کوشش کے طور پر بنائے گئے اثاٹوں کے کیس میں عدالت کے کٹہرے تک آنا پڑٓ تھا، تب انہوں نے کمال تحمل سے اپنا اور اپنے شوہر کا  دفاع کیا تھا اور سچائی بیان کر کے سرکرو قرار پائی تھیں۔  قاضی فائز عیسیٰ یقیناً خود کو خوش قسمت تصور کرتے ہوں گے کہ انہیں زندگی کے مشکل لمحات میں سرینا عیسیٰ جیسی خاتون کی مدد  میسر رہی۔ اب یقیناً وہ طویل مصروفیات سے اٹی زندگی سے نکل پر اپنی نصف بہتر کے احسانات کا بہتر  انداز سے حساب چکا سکیں گے۔

اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے گھریلو زندگی کے ساتھ تعلق کا نفاست کے ساتھ ذکر رکتے ہوئے نستعلیق شخصیت کے مالک جسٹس فائز عیسیٰ نے حاضرین کو مرگہ ہلز پر ماحول کو بربادی سے بچانے کے لئے کئی ریسٹورنٹ بند کروانے کے مشہور فیصلہ کا معاملہ یاد دلاتے ہوئے بتایا،  فیصلے کے بعد  میری نواسی نے بتایا کہ اس کے دوست اس فیصلے سے خوش نہیں اور میرے اس معاملے پر بولنے سے پہلے ہی بچی نے کہا کہ اس نے اپنے دوستوں سے کہا، خدا نے جانور  اور پرندےبھی بنائے ہیں اور ہمیں ان کا اچھے طریقے سے خیال رکھنا چاہیے۔ یہ جگہ ان کا گھر تھی، ہم نے ان کے گھر میں مداخلت کی تھی۔۔۔
منکسر نابغہ جسٹس عیسیٰ نے یہ بتاتے ہوئے کہا،  ’ماحول بہت اہم موضوع ہے اور ہم سب کو اس پر توجہ دینی چاہیے اور اپنے بچوں سے سیکھنا چاہیے‘۔

"آزادی" میں کچھ گھنٹے باقی رہ گئے

اپنی سادہ اور دلوناز گفتگو کے آخر میں قاضی فائز عیسیٰ نے ایک مرتبہ پھر سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’آزادی میں کچھ گھنٹے رہ گئے ہیں۔‘

سی جے قاضی فائز عیسیٰ کی خدمات کا قانون دانوں کی دنیا میں درجہ کیا ہے، یہ منصور اعوان نے بتایا

عزت مآب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہنے کو تو صرف تیرہ مہینے سی جے کی کرسی پر رہے اور باقی ججوں جتنا ہی عرصہ منصف کی حیثیت سے مختلف عدالتوں میں خدمات انجام دیں لیکن ان کے حصہ میں بنی نوع انسان کے بھلے کا سبب بننے والے مقدمات زیادہ آئے اور انہوں نے اپنے حصے کی خدمت دلجمعی کے ساتھ انجام دی۔

ریفرنس میں اٹارنی جنرل منصور اعوان نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیریئر کے اہم فیصلوں کا سرسری تذکرہ  کرتے ہوئے ان کے فیصلوں کو خراج تحسین پیش کیا۔

منصور اعوان جو خود بھی عمدہ قانون دان ہیں، نے کہا کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے انہوں نے کئی اہم فیصلے کیے، 2013 میں محمد سلیم بنام حکومت پاکستان مقدمے میں انہوں نے سرکاری حکام کے حکومتی اخراجات پر حج پر پابندی کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

منصور اعوان نے کہا  کہ نسرین کھیتران اور حکومت بلوچستان کے درمیان 2012 کے مقدمے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 19اے میں درج معلومات کے حصول کے  بنیادی حق پر زور دیا اور مدعا علیہان کو ہدایت کی کہ وہ صوبے کے تمام اسکولوں میں بہتر گورننس کو یقینی بنائیں اور ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ اساتذہ اور اسکول تعلیم فراہم کریں جس کی متعلقہ حکومتی افسران نگرانی کریں۔

ریفرنس میں شریک  دیگر مقررین بشمول چیف جسٹس آف پاکستان نامزد جسٹس یحییٰ آفریدی،  وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل فاروق ایچ نائیک، صدر سپریم کورٹ آف پاکستان شہزاد شوکت نے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی شاندار خدمات کو سراہا۔ قانون کی حکمرانی اور ملک کے لیے ان کی خدمات اور گراں قدر فیصلوں پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

جسٹس آفریدی نے خواتین کے حقوق سے متعلق مقدمات کے لیے سبکدوش ہونے والے اعلیٰ جج کی تعریف کی، اور اس بات پر روشنی ڈالی کہ جسٹس عیسیٰ "ان کے حقوق کے تحفظ اور عدالت کی پوری طاقت کے ساتھ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوئی حد نہیں چھوڑی"۔

انہوں نے CJP کی بھی تعریف کی کیونکہ انہوں نے "کھلے عام اعتراف" کیا کہ انہیں اظہار خیال کرنے میں شرم محسوس کرنے کے بجائے ایک قابل وکیل کی مدد کی ضرورت ہے۔

"مجھے اکثر ان لوگوں پر افسوس ہوتا تھا جنہوں نے روسٹر کو عبور کیا تھا اور بعض اوقات انہیں مکمل تباہی سے بچانا پڑتا تھا لیکن جیسے جیسے گھڑی آدھے گھنٹے سے آگے گزرتی، موڈ بدل جاتا، ہمارے پاس ایک ہمدرد سننے والا جج ہوتا، جو دن بھر بیٹھا رہتا۔ کاز لسٹ کے آخری کیس کی سماعت ہوئی اور فیصلہ کیا گیا۔

جسٹس آفریدی نے حاضرین کو جتلایا  کیا کہ ان کے اور  عزت مآب جسٹس عیسیٰ کے درمیان "اختلافات ہیں لیکن وہ ہمیشہ میرا نقطہ نظر سننے کے لیے تیار تھے اور قائل کرنے کے لیے تیار رہتے تھے - ایک ایسی خصوصیت جو بہت کم لوگوں کے پاس ہے"۔

قیادت  کن ہاتھوں میں منتقل ہو رہی ہے

جسٹس آفریدی نے اپنی ترجیحات اور اصول بتانے کا موقع بھی لیا جس کے مطابق وہ بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ کی رہنمائی کریں گے۔ "جہاں تک آگے آنے والا ہے، میں سب کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے، پاکستان کے شہریوں کے لیے، قانون کی حکمرانی ہوگی۔ طاقت کے ٹرائیکوٹومی کے اصول غالب ہوں گے۔ جج کے وقار اور عدالت کی عظمت کو سختی سے یقینی بنایا جائے گا، چاہے وہ بنی، چترال میں بیٹھا ہوا سول جج ہو یا آج میرے ساتھ بیٹھا ہوا میرا بھائی جج۔بارز کی شکایات پر فوری توجہ دی جائے گی،‘‘ انہوں نے کہا۔

نئے  چیف جسٹس نے زور دیا: "فوری توجہ کو دور دراز کے اضلاع تک بڑھانا ہو گا: بلوچستان میں جیوانی، خیبرپختونخوا میں ٹانک، سندھ میں گھوٹکی اور پنجاب میں صادق آباد۔"

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پشاور، لاہور، کراچی اور کوئٹہ کے صوبائی دارالحکومتوں پر ہائی کورٹس اور حکومت کی "فوری توجہ" تھی۔ "یہ دور دراز کے اضلاع ہیں جو ہماری توجہ کے مستحق ہیں اور بہترین ججوں کو جانا چاہئے کیونکہ وہ (علاقے)  کسی اور  (جگہ)سے زیادہ مستحق ہیں۔"

جسٹس آفریدی نے مزید کہا کہ ان اضلاع کے معاملات کی بہتری ان کی "پہلی ترجیح" ہو گی۔

یہ سطور پبلش ہونے تک عزت مآب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اور نئے چیف جسٹس آج حلف اٹھائیں گے۔

مزیدخبریں