ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

فائنل کال یا تابوت میں آخری کیل؟؟

اسعد نقوی

فائنل کال یا تابوت میں آخری کیل؟؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھے بانی پی ٹی آئی کی احتجاج کی کال کو  اقتدار کے نشے میں چوُر سیاسی ٹولے نے’ فائنل کال‘ کا نام دے کر  اپنی سیاست  کو ڈبو دیا ہے ۔کیونکہ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کچھ بھی فائنل نہیں ہوتا بلکہ کبھی بھی حالات پلٹ سکتے ہیں ۔بشریٰ بی بی نے جیل سے رہا ہونے کے بعد ایک بار پھر  وہی  ہتھکنڈے آزمانے شروع کردیے جس کے حوالے سے ان  پر الزامات تھے ۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ  عمران خان کے دورِ حکومت میں پنجاب  کی بیورکریسی کے تبادلوں سے لے کر  پنجاب حکومت کے فیصلوں میں  بشریٰ بی بی کا کردار تھا اور عثمان بزدار صرف کٹھ پتلی ہی تھا۔اب  کی بار  بشریٰ بی بی نے ایک ایسا جال بچھایا ہے جس کی لپیٹ میں  ایک اور وزیر اعلیٰ آچکا ہے۔ پشاور کے وزیر اعلیٰ ہاوس سے فیصلوں کی کمان ایک بار پھر بشریٰ بی بی کے ہاتھوں میں ہے اور علی امین گنڈا پور اس جال سے نکلنے کی کوشش میں ہے مگر اس بار  کارکنوں کو بھی  وزیر اعلیٰ  خیبر پختونخواہ کو لگام ڈالنے کا حکم دے دیا گیا ہے ۔

اگر آ پ پی ٹی آئی کے پچھلے احتجاجی  مارچ کو دیکھیں تو علی امین گنڈا پور پشاور سے لاہور یا اسلام آباد جتنی بار بھی  اپنے الاؤ لشکر کے ساتھ  آیا اور حکومت کے خلاف بڑھکیں ماریں ، بقول وزیر اطلاعات پنجاب عظمی بخاری ’ علی امین گنڈا پور  سستے سلطان راہی  بنے ہوئے ہیں ‘ اور علی امین نے نہ صرف بڑھکیں ماری بلکہ اپنے ہی کارکنوں کے ساتھ  ڈبل گیم کھیل لی ۔ علی امین  ہر احتجاج کے بعد  خود غائب ہوگیا اور اپنے کارکنوں کو  گرفتار کروا دیا ۔ جن میں سے اکثریت وہی لوگ تھے جو نو مئی جیسے  سانحہ میں ملزمان تھے اور پشاور میں چھپے بیٹھے تھے ۔اس بار علی امین گنڈا پور کی  دو یا تین ویڈیوز سامنے آچکی ہیں جس میں  وہ قسمیں کھا  رہے کہ وضو کرنے جانا ہے مگر  کارکنان انہیں جانے نہیں دے رہے ۔ ایک اور ویڈیو میں انہوں نے کہیں جانا تھا اور  ان کو لینے گاڑی بھی  آ پہنچی مگر  کارکنوں نے  ’ مرشد‘ کے حکم پر  وزیر اعلیٰ کو لگام ڈال رکھی ہے اور وہ ان کو کہیں بھی ’ غائب‘ نہیں ہونے دے رہے ۔وہ  اس بار  علی امین گنڈا پور کو ڈی چوک لے کر جانا چاہتے ہیں جبکہ بڑھکیں مارنے والا وزیر اعلیٰ  خیبر پختونخواہ اسلام آباد کے ڈی چوک جانے سے کترا رہا ہے ۔آپ نے  وہ ڈراما تو سن ہی لیا ہوگا جو بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور  کے درمیان  احتجاجی قافلے کی  قیادت پر ہوا ۔ دراصل  علی امین گنڈا پور  نے پشاور سے افغان اور پٹھانوں کو لے کر اسلام آباد پہنچ کر غائب ہونا تھا اس لیے انہوں نے بشریٰ بی بی کو قائل کر لیا کہ خیبر پختونخواہ کی حدود کے اندر احتجاجی قافلے کو  وہی لیڈ کریں گے کیونکہ اس کے پیچھے  وجہ وہی روایات تھیں کہ پٹھان اور افغان خواتین کی سربراہی میں کبھی بھی گھر سے نہ نکلتے اور وہ  کبھی بھی جلسے کا حصہ نہ بنتے ۔اس لیے خیبر پختونخواہ کی حدود تک  علی امین گنڈا پور ہی قافلے کی قیادت کرتے رہے ۔ جیسے ہی پنجاب میں داخل ہوئے تو قافلے کی کمان بشریٰ بی بی نے سنبھال لی اورپشاور کی ہی عوام کو اپنے وزیر اعلیٰ کو لگام ڈال کر رکھنے کا اشارہ بھی دے دیا ۔تبھی تو بڑھکیں مار کر ہیرو بننے والا اپنے ہی کارکنان کی منت سماجت پر اتر آیا اور انتہائی بے بس دکھائی دیا ۔ ایسا نظر آ رہا ہے جیسے اس بار علی امین گنڈا پور بس کٹھ پتلی ہی ہے 

کل سے خبریں اُڑائی جا رہی تھیں کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات ہو نے جا رہے ہیں ۔قیدیوں کو رہا کردیا جائے گا ۔ اور کل ہی  بیرسٹر گوہر نے بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور تک بانی پی ٹی آئی کا پیغام پہنچا دیا کہ سنجانی میں جا کر دھرنا دے دیں ۔ علی امین گنڈا پور کا ردعمل یہ تھا کہ کارکن سے رابطہ کاری میں مشکلات ہیں جبکہ بشریٰ بی بی نے دو ٹوک کہا کہ وہ خان کو لیے بغیر واپس نہیں جائیں گی اور وہ ڈی چوک ہی جائیں گی ۔

ذرائع یہ بھی بتا رہے ہیں کہ رینجرز اور پولیس اہلکاروں کی شہادت کے پیچھے بھی بشریٰ بی بی کے ہی احکامات ہیں وہ  ہر صورت ڈی چوک میں پہنچ کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہیں کیونکہ  انہوں نے باضابطہ طور پر  نیا نیا سیاست میں قدم رکھا ہے ۔ دوسری طرف حکومت کا موقف واضح ہے کہ مذاکرات کسی بھی صورت نہیں ہوں گے اور حکومت کا موقف درست ہے کیونکہ  پی ٹی آئی کے قافلے میں غیر ملکی بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے حکومت کسی بھی صورت مذاکرات نہیں کرے گی کیونکہ غیرملکی یعنی افغانی  یہاں پر  فورسز پر حملہ آور ہے اور تحریک انصاف کا مارچ خونی مارچ بن چکا ہے جس پر حکومت ایکشن لے گی ۔ حکومت  ابھی تک صبر کررہی ہے جبکہ دوسری  جانب قافلے میں موجود سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی شروع ہوچکی ہے ۔ ان کو نوکریوں سے برخاست کیا جانے کا فیصلہ ہو رہا ہے ۔ 

پنجاب  اسمبلی میں پی ٹی آئی کو کالعدم قرار دینے کی  قرار داد پیش کی جاچکی ہے ۔ بازگزشت یہی ہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھی یہی قرار داد پیش کی جائیں گی اور عدالت کے احکامات اور پی ٹی آئی کی کارروائیوں کی مفصل رپورٹ  عدالت میں پیش کرکے پی ٹی آئی کو کالعدم قرار دیا جائے گا۔بیرسٹر گوہر کو اس کا ادراک ہوچکا ہے اور اس لیے انہوں نے وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات کی پریس کانفرنس کے بعد  کارکنوں کو پرامن رہنے کے احکامات دیے ہیں مگر ابھی تک یہی لگ رہا ہے کہ اس بار چیئرمین پی ٹی آئی بیر سٹر گوہر بھی بے بس ہے کیونکہ بقول وزیر داخلہ  سارے فساد کی جڑ ایک عورت ہے ایسا ہی معلوم ہو رہا ہے کہ ’ مرشد‘  فائنل کال  کےنام پر پی ٹی آئی کے تابوت میں آخری کیل  ٹھونک رہی ہیں ۔کیونکہ عمران خان کی ساری سیاست موروثی سیاست کے خلاف ہے اور اب پی ٹی آئی کی صفوں میں پی ٹی آئی رہنماؤں نے بھی بشری  بی بی اور علیمہ خانم کی سیاست میں اینٹری کو قبول نہیں کیا خاص طور پر بشری  بی  بی  کا فیصلوں پر اثر انداز ہو کر قیادت کرنے پر ان کے خلاف چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں اور سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا پی ٹی آئی بھی موروثیت  پسند پارٹی بن گئی ہے ۔دوسری طرف  آئی جی  اسلام آباد اور تحریک انصاف  کی بھی پرانی  یاد اللہ ہے ۔ عمران خان کی گرفتاری کے واقعات میں آئی جی پنجاب کی آنکھ زخمی ہوچکی ہے ۔ اب لاشیں گرنے کے بعد پولیس اور رینجرز   کی حکمت عملی سےاور قیادت بشریٰ بی بی کو سونپ کر   پی ٹی آئی اپنی ہی نادانی کے باعث سیاسی موت مر جائے گی۔