(24 نیوز): اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف توہین عدالت کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دی ہے۔ فیصلے سے قبل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جو خود متاثرہ ہے وہ بھی ہتکِ عزت کا دعویٰ کر سکتا ہے، ریٹائرڈ آدمی کی توہین نہیں ہوتی، بے شک ریٹائر ہونے والا چیف جسٹس ہی کیوں نہ ہو۔
ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سابق چیف جسٹس پاکستان پر تنقید سے پٹیشنر کی دل آزاری ہوئی،سابق چیف جسٹس پاکستان پر انفرادی حیثیت میں تنقید کی گئی،یہ توہین عدالت کا جرم نہیں بنتا۔
عدالت ایک فیصلے میں کہہ چکی کہ ججز قانون سے بالاتر نہیں اور جوابدہ ہیں،ریٹائرمنٹ کے بعد جج عدلیہ کا حصہ نہیں رہتےاوران کادرجہ عام شہری کاہوتا ہے،بطور شہری ان کے پاس دادرسی کے متبادل فورم موجود ہیں۔ہائیکورٹ کا مزید کہنا تھا کہ توہین عدالت کے اختیار کا استعمال صرف اسی صورت جائز ہے جب وہ عوامی مفاد میں ہو۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ججز کا کام انصاف کی فراہمی ہے، ججز کو عوامی تنقید سے استثنیٰ حاصل نہیں ہے اور ایک آزاد جج تنقید سے کبھی بھی متاثر نہیں ہوتا، ایک پرائیویٹ پرسن کی ہتک عزت پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں بنتی کیونکہ قانون میں پرائیویٹ پرسن کی عزت کی حفاظت کیلئے دیگر شقیں موجود ہیں۔
اس سے قبل سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے وکیل نے عدالت میں اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ثاقب نثار کے خلاف جو باتیں پریس کانفرنس میں ہوئیں وہ توہین عدالت ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدلیہ کو اسکینڈلائز کرنے کے مبینہ الزام میں مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز اور سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست کے قابلِ سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا تھا کہ تنقید سے متعلق ججز اوپن مائنڈ ہوتے ہیں،ججز بڑی اونچی پوزیشن پر ہوتے ہیں انہیں تنقید کو ویلکم کرنا چاہیے۔