عربوں کی اسرائیل سے قربتیں،پاکستان اپنے موقف پر قائم رہے گا؟

26 Nov, 2020 | 01:05 PM

Azhar Thiraj

اظہر تھراج | مسلم دنیا تاریخ کے نئے موڑ پر ہے۔ عرب اور اسرائیل میں فاصلے سمٹتے نظر آرہے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور سعودی ولی عہد کی ملاقات ہوئی ہے۔ سعودی عرب میں ملاقات میں امریکی وزیر خارجہ بھی موجود تھے۔ عالمی میڈیا اس ملاقات پر چیخ رہا ہے۔ اگر یہ خبر سچ ہے تو یہ عالمی سیاست میں بہت بڑی ڈیولپمنٹ ہے۔ یو اے ای، بحرین اور سوڈان پہلے ہی اسرائیل سے جا ملے ہیں۔ اسرائیل سے یہ دوستی عربوں کےلیے کیا رنگ لائے گی؟ عرب ممالک کل کے دشمن کو گلے لگانے کےلیے اتنے بے چین کیوں ہیں؟ پاک اسرائیل ناراضی کیا ہمیشہ قائم رہے گی؟

 
نئی عالمی سیاسی ڈیولپمنٹ اقلیت کےلیے خوشی کا باعث ہے تو اکثریت کےلیے بے چینی بھی لارہی ہے۔ حالیہ بدلتے حالات پر اٹھنے والے سوالات بھی جواب طلب ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ملاقات ہوئی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو، موساد چیف کے ساتھ پرائیویٹ جیٹ میں آئے۔ انہوں نے خفیہ مقام پر سعودی ولی عہد سے ملاقات کی۔ مسئلہ یہ ہے کہ حالیہ امریکی انتخابات کے نتائج نے سعودی عرب سمیت کئی ممالک کو پریشان کردیا ہے۔ جوبائیڈن کی کامیابی کے بعد سعودی عرب ڈرا ہوا ہے کہ نئے امریکی صدر کیا کریں گے؟ سعودی عرب امریکا میں اسرائیلی لابی کی سپورٹ چاہتا ہے۔ سعودی عرب نے ترکی اور اسرائیل دونوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ سعودی عرب نہیں چاہتا کہ اس کے امریکا سے تعلقات میں دراڑ آئے۔ کیا سعودی عرب کی یہ کوششیں کارگر ثابت ہوں گی؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکا کی فارن پالیسی سے اثرات پڑتے ہیں۔ چار مسلمان ممالک امریکا کی فارن پالیسی سے تباہ ہوگئے۔ لیبیا اوبامہ اور ہلیری کی وجہ سے تباہ ہوئے۔ شام میں اسد کے پیچھے روس اور حزب اللہ نہ ہوتے تو یہ بھی لیبیا جیسا ہوتا۔ عراق اور افغانستان کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔ افغانستان اور عراق کی صورتحال نے امریکا کو نقصان پہنچایا۔ ٹرمپ نے نئی جنگیں نہیں چھیڑیں۔ جوبائیڈن سابق امریکی صدر باراک اوباما کے زیر اثر ہیں۔ یہ ان کی طرح ’’گھنے‘‘ ہیں۔ ایسے لوگ خطرناک ہوتے ہیں۔ یہ خطرہ دنیا کو بے چین کیے ہوئے ہے۔

جوبائیڈن کی جیت سے ایران نے بھی خوش فہمیاں وابستہ کرلی ہیں۔ ایران کو امید ہے کہ اب پابندیاں نرم ہوں گی۔ ایران کےلیے یورپ میں تجارت کے راستے کھلیں گے۔ ایران پر پابندیاں نرم پڑنے سے پاکستان کو بھی فائدہ ہوگا۔ پاکستان کا مال ایران جائے گا اور ایران کا مال پاکستان آئے گا۔ سعودی عرب خطے میں ایران کا اثر و رسوخ روکنا چاہتا ہے۔ اسرائیل کو اگر کوئی آنکھیں دکھا سکتا ہے تو وہ ایران اور ترکی ہیں۔ سعودی عرب کی ایران سے بنے گی نہیں۔ کہتے ہیں کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے، سعودی عرب بھی اسی پالیسی کے تحت اپنی دیرینہ پالیسی کو قربان کرنے جارہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ جب پاکستان کے دوست اسرائیل سے محبت اور دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں تو کیا پاکستان اس دوڑ میں پیچھے رہے گا؟ پاک اسرائیل ناراضی کیا ہمیشہ قائم رہے گی؟ وزیراعظم عمران خان کا فلسطین پر موقف پوی قوم کا موقف ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل سے تعلقات پر ہماری پالیسی وہی ہے جو بانی پاکستان کی تھی۔ بانی پاکستان ہمیشہ اسرائیل سے تعلقات کو رد کرتے رہے۔ وہ تو کہتے تھے کہ ’’یہ امت کے قلب میں خنجر گھسایا گیا ہے، یہ ایک ناجائز ریاست ہے جسے پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا‘‘۔

ہمارا موقف عرب لیگ یا او آئی سی کے موقف سے نہیں جوڑا جاسکتا ہے۔ ہمارا موقف تو بانی پاکستان قائداعظم کے موقف پر قائم ہے۔ پاکستان اگر فلسطین کی پالیسی سے پیچھے ہٹتا ہے تو وہ کشمیر پالیسی سے ہٹ جائے گا۔ پاکستان وہ غیر عرب ملک ہے جس نے اسرائیل کے خلاف دو جنگوں میں حصہ لیا۔ پاکستان کی پالیسی واضح ہے جسے بدلا نہیں جاسکتا۔ لیکن ہمارے وزیراعظم ہر معاملے میں موقف بدلنے اور یوٹرن لینے میں ثانی نہیں رکھتے۔ جونہی سعودی ولی عہد کی اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کی خبر آئی ہے، پاکستان میں ایک مخصوص گروہ کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کےلیے اتفاق رائے قائم کرنے کےلیے لگادیا گیا ہے۔

’’قبول ہے‘‘ کے مشن پر مخصوص دانشوروں اور صحافیوں کی لابی نے کام شروع کردیا ہے۔ حکومت نے سوشل میڈیا کے ذریعے پتے پھینکنا شروع کردیے ہیں۔ ماضی بتاتا ہے کہ ہمارے وزیراعظم اونچائی پر جاکر چھلانگ لگاتے ہیں، اس معاملے میں بھی ایسا ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ان کے پیروکار اسے تبرک سمجھ کر قبول کرلیں گے۔

مزیدخبریں