(ویب ڈیسک) وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد غیر مؤثر ہو گئی۔
تفصیلات کے مطابق مطلوبہ اکثریت نہ ہونے پر وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش نہ ہوسکی، تحریک کے لیے 13 اراکین کی حمایت درکار تھی تاہم 11 لوگوں نے قرارداد کی حمایت کی، مطلوبہ حمایت نہ ملنے پر عدم اعتماد کی تحریک غیر موثر ہوگئی۔
جام کمال اور سردار یار محمد رند نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتا تھا مطلوبہ تعداد حاصل نہیں، خالد مگسی کو کہا ہے وفاقی حکومت سے پوچھیں وہ کیوں چپ تھے، پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو نوٹسز بھیجے جائیں گے۔
قائم مقام سپیکر نے رولنگ دی کہ مطلوبہ اکثریت حاصل نہ ہونے پر بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہو سکتی۔ تحریک غیر مؤثر ہونے پر بلوچستان اسمبلی میں اجلاس بدنظمی کا شکار ہو گیا، سردار یار محمد رند اور اسد بلوچ کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی، مہمانوں کی گیلری سے بھی آوازیں کسی گئیں۔
خیال رہے کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال پی ڈی ایم رہنماؤں کو ان کا وعدہ یاد دلانے کے لیے کئی دن سے سرگرم تھے، اس سلسلے میں انھوں نے ذاتی سطح پر وزیر اعظم شہباز شریف، آصف علی زرداری، اور مولانا فضل الرحمان سے بالواسطہ طور پر رابطے بھی کیے۔
نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے صدر جام کمال نے آج یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ اگر پی ڈی ایم جماعتوں نے بلوچستان حکومت کی تبدیلی میں بی اے پی کا ساتھ نہ دیا تو وہ دوستوں کے ساتھ بیٹھیں گے، انھوں نے کہا ‘ہمیں بھی پھر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔’
خیال رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی وفاق میں شہباز حکومت کی اتحادی ہے، اس کے 4 ووٹ ہیں، جب کہ شہباز حکومت صرف 2 ووٹوں کی برتری پر کھڑی ہے، اگر بی اے پی اپنی حمایت واپس لیتی ہے تو موجودہ حکومت ختم ہو سکتی ہے۔
جام کمال نے تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے کچھ ایم این ایز نے یہ تجویز دی ہے کہ اگر حکومت ہماری تحریک میں ساتھ نہیں دیتی، جب کہ یہ تحریک ایک حقیقی سبب رکھتی ہے، تو ہمیں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے، کیوں کہ ہم بلوچستان میں تبدیلی کے نکتے پر وفاق کی طرف گئے تھے۔
انھوں نے کہا بی اے پی کے بیانیے پر یہاں بلوچستان میں دوست پچھلے دو تین دن سے بہت سختی سے بات کر رہے ہیں، بی اے پی کے سینیٹرز، ہمارے ایم پی ایز، اور چند ایم این ایز نے اس پر بات کی ہے، اس لیے پی ڈی ایم کی جماعتوں سے کہوں گا کہ اس بات کو سنجیدگی سے لیں، ہم سے تو عمران خان سمیت پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کوئی ٹھیک حکومت نہیں ہے، بلوچستان کے مفاد کے خلاف ہے، میرا وزارت اعلیٰ کے منصب میں کوئی دل چسپی نہیں، بات بلوچستان کے مفاد کی ہے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آج جام کمال نے کہا تھا کہ بی اے پی اراکین کے مابین وفاقی حکومت چھوڑنے پر بات ہوئی ہے، پی ڈی ایم کی جماعتوں نے مرکز میں حکومت کی تبدیلی پر بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی پر مثبت اشارے دیے تھے، اور ہم نے مرکز میں عدم اعتماد کی حمایت پر یہ بات رکھی تھی، اس لیے ہم امید کرتے ہیں وفاقی حکومت میں موجود جماعتیں یقین دہانی پر پورا اتریں گی۔