ویب ڈیسک: سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف کیس کی آج کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا،6 صفحات پر مشتمل حکمنامہ چیف جسٹس پاکستان نے تحریر کیا۔
تحریری حکمنامہ میں کہا گیاکہ سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے،اٹارنی جنرل نے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھایا، جسٹس منصور علی شاہ کی درخواست گزار جواد ایس خواجہ سے رشتہ داری کو جواز بنا کر اعتراض اٹھایا گیا،جسٹس منصور علی شاہ نے الگ سے اپنا اضافی نوٹ تحریر کیا ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا اضافی نوٹ تین صفحات پر مشتمل ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا اپنے نوٹ میں لارڈ ہیورٹ کا حوالہ دیا، نوٹ میں کہا گیاہے کہ یہ اہم ترین بات ہے کہ نہ صرف انصاف ہو بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آئے، اس معاملے کی اہمیت کے پیش نظر فل کورٹ بنایا جانا چاہئے تھا، آج سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے بینچ میں میری موجودگی پر اعتراض اٹھایا، میں ان خیالات کا اظہار پہلے بھی متعدد بار کر چکا ہوں، عدالتی نظام میں عوام کا اعتماد سب سے بنیادی نقطہ ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اضافی نوٹ میں کہا کہ زیر سماعت درخواستوں میں ایک درخواست گزار جسٹس جواد ایس خواجہ بھی ہیں، ہر اس چیز سے گریز ضروری ہے جس سے عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچے، عوام کا اعتماد ہی عدالتی فیصلوں کو قانونی جواز دیتا ہے، جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ میرے رشتہ دار ہیں ، اس بات کا علم عدالتی نظام سے جڑے ہر شخص کو ہے۔
نوٹ میں مزید کہا گیاہے کہ سماعت کے آغاز پر پوچھا کیا کسی کو میرا اس مقدمے کو سننے پر اعتراض تو نہیں ، اٹارنی جنرل سے بھی پوچھا کہ انہیں مجھ پر اعتراض تو نہیں ، جن کو علم نہیں تھا انکو بھی سماعت کے آغاز پر اوپن کورٹ میں یہ بات بتائی، اٹارنی جنرل نے کہا میری بینچ میں موجودگی پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ، ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ کہتا ہے کہ منصف ایسے مقدمات نہ سنے جس میں اسکی ذاتی دلچسپی ہو، میرا موقف تھا کہ ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کے آرٹیکل کا اطلاق اس کیس پر نہیں ہوتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ میں مزید کہا ہے کہ یہ ججز کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کا تحفظ اور دفاع کریں، بینچ سے از خود علیحدگی اس لیے نہیں چاہتا تھا کہ کسی اعتراض کے بغیر ایسا کرنا درست نہ ہوتا، جواد ایس خواجہ کی درخواست انکے ذاتی مفاد نہیں بلکہ مفاد عامہ کا معاملہ تھا، موجودہ کیس آئینی لحاظ سے نہایت اہم اور مفاد عامہ کا ہے،بنیادی انسانی حقوق ،زندگی،آزادی،آبرو اور فئیر ٹرائل کا معاملہ عدالت کے سامنے ہے، فل کورٹ نہ بنائے جانے پر مجھے شدید تحفظات تھے۔
نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں موجود سپریم کورٹ کے تمام ججز پر مشتمل بینچ تشکیل دیا جانا چاہیے تھا، میں ان تحفظات کے باوجود بینچ کا حصہ بنا اور سماعت جاری رکھی، عدالتی غیر جانبداری عوامی اعتماد کیلئے ضروری اور فئیر ٹرائل کیلئے ناگزیر ہے، عدالتی غیر جانبداری جمہوریت کے تحفظ اور قانون کی عمل داری کیلئے نہایت ضروری ہے، اگرچہ کسی بھی آئینی عدالت میں یہ فیصلہ جج اپنے ضمیر کے مطابق کرتا ہے کہ سماعت کرے یا علیحدگی اختیار کرے۔