(آپ ہر ہفتے اور اتوار کو خاور نعیم ہاشمی کی نئی کہانی پڑھ سکیں گے)
وہ مجھے نوے کی دہائی میں پہلی بار شاہنور اسٹوڈیوز میں سید شوکت حسین رضوی کے گھر ملا تھا۔ ڈرائنگ روم میں نیو ائیر نائٹ پارٹی چل رہی تھی۔ میرے ساتھ، پینٹر مصطفی اور میجر رشید وڑائچ بھی تھے۔ وہاں پارٹی والے سب لوازمات تو موجود تھے، لیکن سرور بھٹی کے ساتھ بیٹھا ہوا ایک شخص جس بے دردی سے نوٹ لٹا رہا تھا۔ وہ میرے لئے ناقابل برداشت تھا۔ مجھے احساس ہوا جیسے نوٹوں کی نمائش کرکے ہماری توہین کی جا رہی ہے۔ میں نے بہت اونچی آواز میں سرور بھٹی سے سوال کیا۔
یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
۔۔۔۔۔۔شاہ جی ، یہ محفل ہے، جو آپ کے لئے سجائی گئی ہے، سرور بھٹی کے جواب کے ساتھ ہی ان کے ساتھ بیٹھا ہوا شخص اٹھا اور میری جانب بڑھنے لگا، یہ وہی تھا جس کی ساری جیبیں نوٹوں سے بھری ہوئی تھیں۔۔۔۔اس آدمی نے لٹھے کی شلوار اور بوسکی کی قمیض پہنی ہوئی تھی، چلنے کا انداز بد معاشوں جیسا تھا، میرے دماغ میں آیا کہ یہ مجھ پر حملہ آور ہو سکتا ہے، میں نے حفظ ما تقدم کے طور پر اسے اپنے قریب پہنچتے ہی گھونسہ رسید کر دیا، میرا زور دار ہاتھ اس کی ناک پر لگا، اس کی نکسیر پھوٹی اور سارے کپڑے خون سے آلودہ ہو گئے۔
ایک اور آدمی پتہ نہیں کیوں زوردار دھماکے کے ساتھ زمین پر گرا۔۔ ہارٹ اٹیک، ہارٹ اٹیک کی آوازیں ابھریں شوکت رضوی صاحب گھر کے اندر چلے گئے اور شور پڑ گیا۔ پولیس طلب کر لی گئی، میرے ساتھی بھی بوکھلا گئے۔ اچانک مجھے میڈم یاسمین پردے سے ڈرائنگ روم میں جھانکتی ہوئی نظر آئیں۔ میں جلدی سے ان کے پاس پہنچا۔
میڈم نے کہا ”تم اندر آجاؤ۔
میں نے اپنے ساتھیوں کو بھی اشارہ کیا اور اس طرح ہم عقبی راستے سے باہر آنے میں کامیاب ہو گئے۔
اگلے دن سہ پہر مجھے ایک کال آئی، کوئی شخص مجھ سے معافی مانگ رہا تھا، یہ تو وہی تھا جو پچھلی رات میرے گھونسے کا شکار ہوا تھا۔۔۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ زیادتی تو میری تھی، معافی یہ کیوں مانگ رہا ہے؟ اس کا کہنا تھا کہ وہ میرا اور میرے کارناموں کا بہت گرویدہ ہے، اور پچھلی رات سارا قصور اسی کا تھا۔
یہ تھا۔۔۔عارف سہیل۔۔۔۔عارف سہیل کا تعلق گجرات سے تھا۔ دو چار فلمیں پروڈیوس کر چکا تھا۔ روپیہ اس کے پاس پانی کی طرح آ رہا تھا، کیونکہ وہ اسلام آباد میں ایک ہاؤسنگ سوسائٹی چلا رہا تھا۔ شاہ نور اسٹوڈیوز میں سرور بھٹی والا دفتر اب اس کے پاس تھا، دفتر کی دیواروں پر ملکہ ترنم نور جہاں کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں تھیں۔ ایک دن نور جہاں کا بڑا بیٹا اس کے پاس آیا۔ عارف سہیل کو اس نے ڈیڈی کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے پیسوں کا تقاضا کیا جو پورا کر دیا گیا۔۔۔۔پھر کئی واقعات سے ثابت ہوتا رہا کہ وہ نورجہاں کی قید میں ہے اور یہ قید اس نے بہت انوسٹمنٹ کرکے خود خریدی ہے۔
۔۔۔۔ پھر ایک دن وہ مجھے شادمان میں اپنے گھر لے گیا ۔یہاں وہ اپنی دوسری بیوی اور دو بیٹیوں کے ساتھ رہ رہا تھا ۔ اندر سے پیپلز پارٹی کا جیالا تھا ، اسی لئے بیٹیوں کے نام ، بےنظیر اور صنم رکھے ہوئے تھے۔ عارف سہیل کے پہلی بیوی سے جوان بچے تھے، جبکہ اس کی دوسری بیوی کے بھی پہلے شوہر سے ایجڈ بچے تھے، دوسری بیوی عارف سہیل سے عمر میں بڑی تھی، عارف سہیل مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھا کے گھر کے اندر گیا تو اس کی بڑی بیٹی جو دس گیارہ برس کی تھی میرے پاس آگئی ۔
”انکل آپ ہمارا ایک کام کر سکتے ہیں۔۔؟ “
”ہاں بیٹا ، آپ بتاؤ کیا کام ہے؟“
”میرے پاپا بہت پیتے ہیں ، آپ ان کی یہ عادت چھڑوا دیں۔“
میں نے ہاں تو کر دی، مگر میں ایک بیٹی سے جھوٹ بول رہا تھا ۔۔۔ایک رات وہ بہت’پرواز‘میں تھا۔ جب اس نے مجھے یہ کہانی سنائی ۔۔۔ اس کا باپ کسی زمانے میں نور جہاں کا ڈرائیور ہوا کرتا تھا۔وہ نور جہاں پر عاشق ہوگیا۔ غریب ہی نہیں ان پڑھ بھی تھا۔کئی سال کی ملازمت کے دوران اس نے بہت کچھ ’دیکھا ‘ مگر نور جہاں کو اپنا حال دل نہ سنا سکا۔ نور جہاں نے اسے فارغ کیا تو وہ بے چارہ واپس گجرات اپنے گاؤں چلا گیا اور بستر سے جا لگا۔اس کا بیٹا اس ساری داستان سے واقف تھا ، وہ جانتا تھا کہ اس کا باپ ایک لاعلاج مرض میں مبتلا ہے۔ نور جہاں کے مطب سے اسے کبھی دوا نہیں ملے گی، وہ باپ کی محبت کو سبق سکھانے کے عزم کے ساتھ لاہور آ گیا۔
لاہور میں وہ سب سے پہلے نوید بٹ کا شاگرد بنا۔ نوید بٹ ان دنوں شیخ شفاعت کے فلمی ہفت روزہ اجالا کا ایڈیٹر تھا۔ فلمی صحافی اس دور میں ( چند لوگوں کو چھوڑ کر) ان پڑھ ہی ہوا کرتے تھے۔ عارف سہیل طاقتور لوگوں سے تعلقات بناتا رہا۔ وہ ایک مکمل کاری گر شخص تھا۔ ہر آدمی کو شیشے میں اتار لینے والا، پھر اس نے فلم ایکٹنگ اکیڈمی بنانے کی بھی کوشش کی۔ مختلف راہوں پر چلتے چلتے آخر کار اس کا تیر نشانے پر لگا اور وہ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کا مالک بن کر ان گنت سرمایہ سمیٹنے لگا۔ نوٹوں سے بھرے بریف کیس اس کے ہاتھ میں رہنے لگے تو اس نے نور جہاں پر بھی جال پھینک دیا۔ وہ اپنی عمر سے بڑی نور جہاں کے بیٹوں کا ڈیڈی بن گیا۔
۔۔۔۔ ایک روز عارف سہیل نے نور جہاں کو بتایا کہ گجرات میں اس کے پوتے کی سالگرہ ہے، اور وہ اس کے ساتھ جائے گی، نور جہاں مان گئی۔۔ نور جہاں کو پورے گھرانے کے لئے تحائف خرید کر دئیے گئے ۔عارف سہیل کے باپ کو فالج ہو چکا تھا۔ وہ بولنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا تھا۔ عارف نے اپنے والد کے لئے قیمتی اشیاء خریدیں جو نور جہاں نے اپنی طرف سے اس کے باپ کو پیش کرنا تھیں۔
۔۔۔۔۔۔ عارف سہیل جب نور جہاں کے ساتھ اپنے گھر گجرات پہنچتا ہے تو اس نے وہاں کی مکمل وڈیو فلم بنانے کا بھی بندوبست کر رکھا تھا۔۔ وہ وڈیو میرے پاس ہے کیونکہ ایک بار نشے کی حالت میں اس نے VHSمجھے دے دی تھی۔ یقینآ اگلی صبح وہ اس وڈیو کے میرے حوالے کرنے کا واقعہ بھول چکا ہو گا۔ نور جہاں کا عارف سہیل کے گھر پہنچنے پر ڈھول پتاشوں سے بھرپور استقبال ہوتا ہے، وہ عارف سہیل کی بیوی ، بیٹیوں بیٹوں اور پھر ان کے بچوں میں تحائف تقسیم کرتی ہے، اہل خانہ کی فرمائش پر گانا بھی سناتی ہے ، اور پھر وہ لمحہ آتا ہے جب نور جہاں اپنے عاشق ڈرائیور کے کمرے میں داخل ہوتی ہے، نور جہاں کو شاید نہیں معلوم تھا کہ وہ جس آدمی کے قدموں کو ہاتھ لگا رہی ہے وہ کئی سال اس کا ڈرائیور رہ چکا ہے۔( لیکن یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک انتہائی جہاں دیدہ عورت نے اسے پہچانا نہ ہو۔)
وہ یہاں اپنے ایک انوسٹر کے باپ کو تحائف دینے آئی تھی۔ میں نے وڈیو میں دیکھا کہ نور جہاں جب اس فالج زدہ بوڑھے کے چہرے کو ہاتھوں میں لے کر اس کی صحت یابی کی دعا کرتی ہے تو اس نحیف کی آنکھوں سے آنسو گرتے ہیں جو اس بیمار کے چہرے کو منور کر دیتے ہیں۔