پولیس خواتین سے زیادتی کے مقدمات پس پشت ڈالنے لگی

26 Jun, 2020 | 05:30 PM

Arslan Sheikh

( علی ساہی ) لاہور پولیس خواتین کے ساتھ زیادتی کیسز میں جامع شواہد اکٹھے کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئی، صرف 18 کیسز میں ڈی این اے سیمپلز بروقت حاصل کیے۔ خواتین کو درندگی کانشانہ بنانے والے 261 ملزمان میں سے 135 ملزمان پولیس پکڑنے میں ناکام جبکہ ماتحت افسران کی غفلت پر آئی جی پنجاب نے کارکردگی بہتر بنانے کا حکم دے دیا۔

لاہور کا شمار پاکستان کے ان شہروں میں ہوتا ہے جو ترقی کے حساب سے دیگر شہروں کے مقابلے کافی آگے ہے مگر بدقسمتی سے آئے روز چوری، ڈکیتی، قتل اور زیادتی کے بڑھتے واقعات کی روک تھام میں پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

معاشرے میں جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافے سے نہ صرف معصوم لڑکیاں عدم تحفظ کا شکار ہو رہی ہیں بلکہ ان کے والدین بھی سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔ نوجوان لڑکیوں کو سہانے خواب دیکھا کر ان کے ضمیر کا سودا کیا جاتا ہے اور ایسے معصوم لڑکیاں وحشی درندوں کے ہاتھوں اپنی عزت گواہ بیٹھتی ہیں۔

لاہور پولیس خواتین کے ساتھ زیادتی کیسز میں جامع شواہد اکٹھے کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔ تفتیش کے لیے سب اہم شواہد بھی بروقت حاصل نہیں کیے جا رہے جسکی وجہ سے پولیس ملزمان کو سزا دلوانے میں ناکام ہے اور ایسے درندے دن بدن آزاد ہوتے جارہے ہیں۔

اعداد وشمار دیکھنے کے بعد آئی جی پنجاب نے افسران کو وارننگ دیدی ہے۔ رواں سال خواتین سے زیادتی کے ایک سو پینتیس کیسز میں سے صرف اٹھارہ مقدمات کے ڈی این ای شواہد فرانزک سائنس ایجنسی کو بھجوائے جاسکے۔

صوبہ بھر میں سب سے کم شواہد لاہور پولیس نے بھجوائے، خدشہ ہے کہ شواہد کی کمی کے باعث نہ تو ملزمان کو سزا ہوگی اور نہ ہی متاثرین کو انصاف مل سکے گا۔ کم عمر بچوں کیساتھ بدفعلی کے کیسز میں بھی لاہور پولیس کی سیمپلنگ ناقص رہی جس پر آئی جی پنجاب نے اظہار ناراضگی کیا تھا۔

شہر کے مختلف تھانوں میں درج مقدمات میں 262 ملزمان کو نامزد کیا گیا جس میں 135 ابھی آزاد گھوم رہے ہیں جوکہ لاہور پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

مزیدخبریں