تخت پنجاب پر کس کی حکمرانی؟ سپریم کورٹ نے حتمی فیصلہ سنا دیا

26 Jul, 2022 | 09:00 PM

M .SAJID .KHAN

(ویب ڈیسک) وزیراعلیٰ پنجاب کے معاملے پر ڈپٹی سپیکر دوست مزاری کی رولنگ کےخلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت مکمل، پنجاب پر کون حکمرانی کرے گا سپریم کورٹ نے حتمی فیصلہ سنا دیا۔

تفصیلات کےمطابق تخت پنجاب پر کون حکمرانی کرے گا اس حوالےسے سپریم کورٹ نے حتمی فیصلہ سنادیا۔ 11 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس پاکستان نے تحریر کیا، سپریم کورٹ نے مختصر فیصلہ جاری کرتے پرویزالہی کی درخوست منظور کرلی،ڈپٹی سیپکر کی رولنگ کو سپریم کورٹ نے غلط قرار دے دیا، ڈپٹی سیپکر کی رولنگ غیر آئینی ہے،حمزہ شہباز نے جو حلف اٹھایا وہ بھی غیر آئینی ہے،جو کابینہ بنائی گئی وہ بھی غیر قانونی ہے،حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب نہیں رہے، چودھری پرویز الہی نئے وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے احکامات جاری کئے گئے کہ چیف سیکریٹری پرویز الہٰی کابطور وزیراعلیٰ نوٹی فکیشن جاری کریں،گورنر آج ساڑھے 11بجے تک نئے وزیراعلیٰ سے حلف لیں،اگر گورنر حلف نہ لے تو صدر مملکت اس کا انتظام کریں،حمزہ شہباز نے جو بھی قانونی کام کئے وہ برقرار رہیں گے,حمزہ شہباز فوری طور پر وزیراعلیٰ آفس خالی کریں،تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا،اس آرڈر کی کاپی گورنر، ڈپٹی اسپیکر اور چیف سیکریٹری کو ارسال کریں۔

پارٹی سربراہ کے اختیارات کے حوالے سے سپریم کے آٹھ رکنی بنچ کا فیصلہ آرٹیکل 63 اے سے متعلق نہیں، سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ کا فیصلہ موجودہ کیس سے مختلف ہے،عدالتی کاروائی ایک گھنٹہ چالیس منٹ تک جاری رہی،ایک گھنٹہ چالیس منٹ جاری رہنے والی عدالتی کارروائی کے دوران حکمران اتحاد نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا،فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کے لئے دیئے گئے دلائل میں آئینی سوال نہیں اٹھایا گیا۔

اٹھارہویں اور اکیسویں ترمیم سے متعلق بطور دلیل پیش کیا گیا فیصلہ اکثریتی نہیں تھا،پرویز الہی کی درخواست میں اٹھایا گیا سوال عوامی مفاد سے متعلق تھا، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی جو تشریح کی وہ بالکل درست ہے، پرویز الہی کو منتخب وزیر اعلی قرار دیا جاتا ہے.

قبل ازیں سپریم کورٹ کے  چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ فل کورٹ بنانا کیس کو غیر ضروری التوا کا شکار کرنے کے مترادف ہے اور فل کورٹ بنتا تو معاملہ ستمبرتک چلا جاتا۔ہمیں ابھی تک نہیں بتایا گیا کس قانون کے تحت فل کورٹ بنچ بنائیں، صوبے کے چیف ایگزیکٹو کا معاملہ ہے فیصلے میں تاخیر نہیں کرسکتے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے فل کورٹ بنانے کا کوئی قانونی جوازپیش نہیں کیا گیا، عدالت میں صرف پارٹی سربراہ کی ہدایات پرعمل کرنے سے متعلق دلائل دیے گئے۔

ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں، اصل سوال تھا کہ ارکان کو ہدایات کون دے سکتا ہے، آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں، فل کورٹ بنتا تو معاملہ ستمبرتک چلا جاتا کیونکہ عدالتی تعطیلات چل رہی ہیں۔

  چیف جسٹس کا مزید کہناتھا کہ  گورننس اور بحران کے حل کے لئے جلدی کیس نمٹانا چاہتے ہیں، آرٹیکل63 اے کی تشریح میں کون ہدایت دے گا یہ سوال نہیں تھا، تشریح کے وقت سوال صرف انحراف کرنے والے کے نتیجے کا تھا۔

مزیدخبریں