ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

غزہ امن معاہدہ مسئلہ فلسطین کا مستقل حل نہیں!

اسلم اعوان

غزہ امن معاہدہ مسئلہ فلسطین کا مستقل حل نہیں!
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

467 دنوں پہ محیط وحشیانہ بمباری کے بعد بلآخر اسرائیل نے حماس کے ساتھ جنگ بندی اور غزہ سے فوجیں واپس بلانے کا معاہدہ  قبول کر لیا، یہ  پیش رفت فلسطینیوں کی مزاحمتی تاریخ میں نہایت غیرمعمولی کامیابی سمجھی جائے گی، جس میں ایک گروپ نے اپنی دلیرانہ مزاحمت کے ذریعے ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی اسرائیلی ریاست کے دست ستم کیش کو تھکا دیا ۔اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والے جنگ بندی معاہدے میں فلسطینی قیدیوں کے بدلے یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے، اُس قطر کی طرف سے بدھ کے روز معاہدے کے جامع خاکے کا اعلان کیا گیا ، جس نے امریکہ اور مصر کے ساتھ ملکر فریقین کے مابین ثالثی کرائی , جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 42 دنوں پہ محیط ہو گا ، اس میں " مکمل جنگ بندی" نظر آئے گی ، 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہائی کے بدلے طویل عرصہ سے اسرائیلی جیلوں میں بند 1890 فلسطینی قیدیوں کو رہائی ملے گی ۔

  پہلے مرحلے کے دوران اسرائیلی فوجی غزہ کے آبادی والے علاقوں کو چھوڑ دیں گے جس کے بعد بمباری کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے سینکڑوں فلسطینی گھرانے غزہ میں اپنے گھروں کو واپس لوٹ پائیں گے , معاہدے کی شرائط کے تحت حماس کی پولیس اپنی سرکاری نیلی وردیوں میں جنگ کی تباہ کاریوں کے باعث جنوبی غزہ سے شمال کی طرف نقل مکانی کرنے والے  تقریباً 2.3 ملین افراد کی دوبارہ بحالی کی نگرانی کرے گی ۔ دوسرے مرحلہ میں جنگ کا مستقل خاتمہ اور غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلاء کے علاوہ باقی ماندہ یرغمالیوں کی، مزید فلسطینی قیدیوں کے  بدلے رہائی ممکن بنائی جائے گی ، اسرائیل نے جن فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، ان میں سے تقریباً 190 ایسے بھی ہیں جو 15سال یا اس سے زیادہ کی قید کاٹ چکے ہیں۔ تیسرے اور آخری مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو کا عمل شروع ہو گا, بتایا جاتا ہے کہ حماس نومبر میں بھی یرغمالیوں کو رہا کرنے سے قبل جنگ کا خاتمہ چاہتی تھی لیکن اسرائیل کے لئے یہ ناقابل قبول تھا کیونکہ اسرائیل کے اعلانیہ جنگی مقاصد میں سے ایک ، حماس کی فوجی اور حکومتی صلاحیتوں کو تباہ کرنا تھا ، پندرہ ماہ کی جنگی مہمات کے دوران اگرچہ اسرائیل نے غزہ کو تباہ کر دیا لیکن حماس کے پاس اب بھی کام کرنے اور دوبارہ منظم ہونے کی صلاحیت  موجود ہے ، اتوار کے روز غزہ میں قید تین اسرائیلی یرغمالیوں کی ریڈ کراس کے حوالے کرنے کے دوران بھاری ہتھیاروں سے لیس حماس کے جنگجوؤں کی فعالیت اسرائیلیوں کے لئے خوفناک یاد دہانی تھی کہ اگر ضرورت پڑی تو ریشمی دھاگا سے بندھا گزشتہ ہفتے طے پانے والا جنگ بندی معاہدہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے ۔ حماس نے کچھ ایسے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا جنہیں چھوڑنے سے اسرائیل ہچکچتا ہے ۔

 خیال کیا جاتا ہے کہ اِن میں حماس کے اہم لیڈر مروان برغوتی  شامل ہیں ، عرب میڈیا کے مطابق حماس کے ہمراہ مصر اور قطر بھی غزہ جنگ بندی معاہدے کے ایک حصے کے طور پر مروان برغوتی کی رہائی کو محفوظ بنانے کے لئے کوشاں ہیں ، حماس کے رہنماؤں نے بتایا کہ برغوتی کی رہائی اس معاہدے میں گروپ کا ’’بنیادی ہدف‘‘ ہے ، ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسا کرنے کے لیے اسرائیلیوں پر دباؤ ڈالنے کا بہترین موقعہ وہ ہو گا جب اسرائیلی فوجیوں کی رہائی بھی میز پر ہو گی ، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی اور مصر کی جنرل انٹیلی جنس سروسز کے ڈائریکٹر میجر جنرل حسن محمود رشاد نے ذاتی طور پر برغوتی کی رہائی کے لئے مداخلت کی ہے ۔ معاہدے کے تحت طے پانے والے تناسب کی پیچیدہ نوعیت کے پیش یہ واضح نہیںکہ آیا اسرائیل اپنے اور غزہ کے درمیان بفر زون سے کسی خاص تاریخ تک نکلنے پر راضی ہوا یا پھر وہاں اس کی موجودگی برقرار رکھی جائے گی ۔7 اکتوبر 2023 کو حماس کے زیر قیادت سینکڑوں بندوق برداروں نے غزہ کے مستقل محاصرہ کو توڑ کر جنوبی اسرائیل میں کمیونیٹیز، پولیس اسٹیشنوں اور فوجی اڈوں کو نشانہ بنا کر تقریباً 1200 افراد کو ہلاک اور 250 سے زائد کو یرغمالیوں بنا کر غزہ واپس لانے میں کامیاب ہوئے تھے ۔ جس کے بعد اسرائیلی فضائیہ نے ہولناک جنگی مشین کے ذریعے انتہائی بے رحمی کے ساتھ غزہ کی محصور آبادی کو کیمائی بموں سے نشان بنا کر 47 ہزار کے لگ بھگ شہریوں، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ، پچھلے پندرہ ماہ سے اسرائیل نے عالمی طاقتوں کی حمایت سے غزہ میں زمینی، سمندری اور فضائی راستے سے شہری آبادیوں پر حملہ کرکے ہزاروں عمارتوں کو تباہ کر ڈالا ، جس کے نتیجہ میں لاکھوں انسانوں کو نقل مکانی کی کلفتوں سے دوچار ہونا پڑا ۔

 بظاہر یہی لگتا ہے کہ موجودہ پیس ڈیل کہانی کا اختتام نہیں بنے گی، فلسطینیوں کو اپنی سرزمین میں جینے کی حتمی آزادی ملے بغیر ایسے معاہدات  مستقل جنگ بندی کے اسباب مہیا کر پائیں گے  نہ خطہ میں امن قائم ہو گا ۔ تازہ جنگ بندی نقل مکانی، بھوک ، موت اور اُن  لامحدود صدمات کا علاج نہیں جو  فلسطینیوں نے پچھلے 75 سالوں میں جھیلے اور مزید طویل عرصے تک برداشت کرتے رہیں گے تاہم نومبر 2023 میں 9 دن کی جنگ بندی پر اتفاق  کے برعکس، یہ معاہدہ کچھ مدت تک رہنے کی توقع  کی جا رہی ہے ، جس کے تین مراحل ہیں، ہر مرحلہ 42 دن پہ محیط ہے۔ پہلے مرحلہ میں غزہ کی پٹی میں جاسوسی مقاصد کے لئے فضائی نگرانی کو عارضی طور پر معطل کردیا جائے گا، خاص طور پر یرغمالیوں کو رہائی کو عملی جامہ پہناتے وقت کسی قسم کی فضائی نگرانی نہیں ہو گی۔ معاہدے کے نفاذ کے پہلے دن سے، بڑی مقدار میں انسانی امداد، امدادی سامان اور ایندھن کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت ہو گی ، ریسکیو کارکنوں کا کہنا ہے کہ غزہ کے پاور پلانٹ اور صفائی ستھرائی کے نظام کو چلانے اور ملبے کو صاف کرنے اور ہٹانے کے لیے بھاری مشینری کے لئے کافی ایندھن ضرورت پڑے گا ، یوں  پٹی کے تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی تعمیرنو کا طویل کام شروع ہو جائے گا ۔ جس وقت معاہدہ پہ بات چیت کا آغاز ہوا تو اسرائیل اور حماس کے درمیان طاقت کا توازن انتہائی غیر متناسب تھا ، پچھلے 15 مہینوں میں اسرائیل نے یہ ظاہر کیا  کہ اس کے پاس حماس سے کہیں زیادہ فوجی طاقت ہے لیکن بعد میں بوجوہ اسرائیل کافی حد تک حماس کی مزاحمتی صلاحیتوں کے سامنے سرنگوں کرنے پہ تیار ہو گیا ۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے لئے حماس کے اصل مطالبات میں سے ایک یہ تھا کہ اسرائیلی فوجیں غزہ سے مکمل طور پر نکل جائیں۔

 جنگ بندی کی شرائط یہ بتاتی ہیں کہ اسرائیلی افواج زیادہ مستقل طور پر سرحد کے ساتھ صرف 40 کلومیٹر لمبے اور پانچ سے 13 کلومیٹر چوڑے بفر زون میں رہیں گی یعنی فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی فوج کی مسلسل موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ اسے بشمول گھروں یا کھیتوں کے شہری زندگی کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔ بہرحال،اس معاہدہ سے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ یقینا ختم نہیں ہوگی بلکہ یہ جنگ بندی ایک نئے مرحلے کے آغاز کی علامت ثابت ہو گی ، بلاشبہ یہ خوش آئند ریلیف ضرور ہے لیکن  46000 سے زیادہ فلسطینیوں کی ہلاکت کے علاوہ لاکھوں افراد کے بے گھر ہونے کے ساتھ ، غزہ کی تباہی  لاکھوں افراد کو کئی قسم کے صدمات سے دوچار کر گئی ، آگے بڑھتے ہوئے،بنیادی مسلہ یہ ہو گا کہ  اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو جنگ بندی کو برقرار نہیں پائیں گے ، وہ انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں کے یرغمال ہیں ،  ان کی ممکنہ طور پر محدود وقتی رضامندی اب زیادہ تر واشنگٹن میں ٹرمپ کی افتتاحی تقریب کو خوشگوار بنانے کی مساعی تھی ۔معاہدہ کی سیاہی خشک ہونے سے قبل ہی نیتن یاہو مبینہ طور پر ناراض وزراء کو یقین دہانی کر رہے ہیں کہ جنگ بندی عارضی ہو گی ،  ان کا حماس کی شرائط پر پوری طرح عمل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں،  کہا جاتا ہے کہ اس نے سخت گیر اتمار بین گویر سے وعدہ کیا ، جنہوں نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا اور بیزیل سموٹریچ، جو مستعفی ہونے کی دھمکی دے رہے ہیں، کہ وہ جلد ہی جنگ دوبارہ شروع کر دیں گے۔