سٹی42: پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود کے سائفر کیس میں ریکارڈ کروائے گئے بیان کی تفصیلات سامنے آ گئیں۔
سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود نے 22 جنوری کوآفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت میں اپنا بیان قلمبند کروایا تھا۔ انہوں نے اپنے بیان میں عدالت کو بتایا کہ 28 مارچ 2022کو امریکی حکام نے باضابطہ طور پر رابطہ کر کے بانی پی ٹی آئی کی 27 مارچ کی (سائفر کہانی والی) پبلک سٹیٹمنٹ پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔29 مارچ2022 ء کو مجھے بنی گالہ بلایاگیا تھا۔8اپریل کوکابینہ اجلاس میں بھی بریفنگ دی ۔ حکومت کو پاک امریکا تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی سے متعلق خبردارکردیاتھا۔ سائفر کیس میں سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود کے ریکارڈ کرائے گئے بیان کی کاپی سامنے آ گئی ہے۔
سائفرکیس میں سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود کے ریکارڈ کرائے گئے بیان کی تحریری کاپی سامنے آ گئی۔
سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود کے 22 جنوری کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت میں قلمبند کروائے گئے بیان میں اہم انکشافات کیے گئے ہیں ، سابقہ سیکرٹی خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مارچ 2022 میں میری تعیناتی بطور سیکرٹری خارجہ تھی،8 مارچ2022 کو واشنگٹن میں پاکستانی سفیر سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا، سفیر نے امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے ساؤتھ و سنٹرل ایشیا سے ملاقات کا بتایا، سفیر اسد مجید کی اس ملاقات میں سفیر کے ساتھ ڈپٹی ہیڈ آف مشن اور ڈیفنس اتاشی بھی موجود تھے، سفیر نے معاملہ کی حساسیت سے متعلق بتایا، سفیر نے کہا انہوں نے اس بات چیت کے حوالے سے وزارت خارجہ کو سائفر ٹیلی گرام بھجوایاہے۔
سہیل محمود نے اپنے بیان میں بتایا کہ 8 مارچ2022 کو واشنگٹن میں پاکستانی سفیر سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا، سفیر نے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ برائے ساؤتھ و سنٹرل ایشیاسے ملاقات کا بتایا،
اس ملاقات میں سفیر کے ساتھ ڈپٹی ہیڈ آف مشن اور ڈیفنس اتاشی بھی موجود تھے، سفیر نے معاملہ کی حساسیت سے متعلق بتایا، سفیر نے کہا انہوں نے اس بات چیت کے حوالہ سے وزارت خارجہ کو سائفر ٹیلی گرام بھجوایاہے، میں نے اپنے دفتر جاکر سائفر ٹیلی گرام کی کاپی وصول کی، میں نے اس سائفر ٹیلی گرام کوکیٹاگرائز کیاکہ سرکولیشن نہیں کرنی صرف سیکرٹری خارجہ کیلئے ہے،میں نے ہدایات کے ساتھ سائفر ٹیلی گرام کی کاپی کی تقسیم کی منظوری دی، سائفر کی کاپی ایس پی ایم کو سربمہر لفافے میں بھجوانے کی ہدایت کی۔
سابق سیکرٹری خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ 27 مارچ2022 کو جلسہ میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک خط لہرایا، 28 مارچ کومجھے ایڈیشنل سیکرٹری امریکہ کی جانب سے انٹرنل نوٹ موصول ہوا،
نوٹ میں کہاگیا تھا کہ امریکی حکام نے وزیر اعظم عمران خان کی پبلک سٹیٹمنٹ پر تشویش کا اظہار کیاہے، میں نے اس نوٹ کو اس وقت کے وزیر خارجہ کو بھیجتے ہوئے مشورہ دیا کہ امریکہ سے منسلک رہنا سمجھداری ہوگی، اس مشورہ کا مقصد اہم ملک کے ساتھ پاکستان کےتعلقات کا تحفظ اورسیکرٹ کمیونیکیشن کی عوامی سطح پربحث سے گریز کرنا تھا،29 مارچ2022 ء کو مجھے ملاقات کیلئے بنی گالہ بلایاگیا جو پہلے سے طے شدہ میٹنگ نہیں تھی اور مختصر نوٹس پر بلائی گئی تھی، اس میٹنگ میں سابق وزیر اعظم کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور اعظم خان بھی موجود تھے۔
سہیل محمود نے اپنے بیان میں مزید بتایا کہ سابق وزیر اعظم کی جانب سے بلائی گئی میٹنگ میں مجھے سائفرٹیلی گرام پڑھنے کا کہاگیا،سائفر پڑھنے کے دوران شرکاء نے یو ایس اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ اورواشنگٹن میں پاکستانی سفیر کے درمیان ہونے والی بات چیت پر کمنٹس کیے، بنی گالہ ہونےو الی میٹنگ مختصر تھی، جو بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہوگئی، میں سائفر ٹیلی گرام کی کاپی اپنے ساتھ لے گیا، سائفر محفوظ رکھنے کیلئے ڈائریکٹر ایف ایس او کے حوالہ کردی، مجھے اس میٹنگ کے منٹس تیار کرنے کا نہیں کہاگیا تھا۔
8 اپریل2022 کو کابینہ میٹنگ ہوئی جس میں سیکرٹری کابینہ، سیکرٹری قانون و انصاف اور میں بطور سیکرٹری خارجہ موجود تھے، میٹنگ میں اپنے خیالات شیئر کرنےکا کہاگیا، میں نے اپنی بریفنگ میں سائفر ٹیلی گرام کی ڈی کلاسیفیکیشن،سائفر سیکیورٹی گائیڈ لائنز، قانونی پوزیشن اور خارجہ پالیسی کے مضمرات کے حوالہ سےبریف کیا، میں نے بتایاکہ سائفر سیکیورٹی گائیڈ لائنز سائفر ٹیلی گرام کوصرف مجاز افراد کے ساتھ شیئر کرنے کی اجازت دیتاہے، بتایاکہ ماضی میں سائفر ٹیلی گرام کی ڈی کلاسیفیکیشن کی کوئی مثال نہیں ہے ،میں نے یہ بھی بتایاکہ سائفر کی ڈی کلاسیفیکیشن سے سفارتی مشن کے کام پر اثر پڑ سکتاہے،کیونکہ اس سے امریکہ اور کچھ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو متاثر ہوسکتے ہیں،میٹنگ کے بعد فیصلہ ہواکہ پارلیمنٹ کے ان کیمرہ اجلاس میں سائفر اور اس کے نمایاں مندرجات کے حوالہ بریفنگ دی جائے، اس دوران 29ستمبر 2022 کو میں وزارت خارجہ سے ریٹائر ہوگیا،اس وقت تک ایس پی ایم سے سائفرکی کاپی وزارت خارجہ کو واپس موصول نہیں ہوئی تھی۔